|

وقتِ اشاعت :   June 5 – 2016

ڈھاکا: جنوب مشرقی بنگلہ دیش میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سرگرم پولیس افسر کی اہلیہ کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے چٹاگونگ کے ایڈیشنل نائب پولیس کمشنر ہمایوں کبیر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 33 سالہ محمودہ اختر کو 3 موٹر سائیکل سوار ملزمان نے اس وقت نشانہ بنایا، جب وہ صبح کے وقت اپنے بچے کو اسکول چھوڑ کر گھر لوٹ رہی تھیں۔ ہمایوں کبیر کا کہنا تھا کہ محمودہ اختر کو سر میں 3 گولیاں ماری گئیں۔ انہوں نے کہا ہوسکتا ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہو، کیونکہ ہلاک ہونے والی خاتون کے شوہر سپرنٹندنٹ پولیس (ایس پی) بابل اختر نے کئی دہشت گردوں کی گرفتاری میں اہم کردار ادا کیا۔ بنگلہ دیش میں مشتبہ شدت پسندوں نے گزشتہ سال کے اوائل سے اب تک متعدد افراد کو نشانہ بنایا ہے، جن میں کئی آزاد خیال بلاگرز، ماہر تعلیم اور مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ سرکاری طور پر بنگلہ دیش ایک سیکولر ملک ہے، لیکن اس کی 160 ملین پر مشتمل آبادی میں 90 فیصد سے زائد مسلمان ہیں۔ خیال رہے کہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت ہے جبکہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو مذہبی طبقے کا شدید مخالف سمجھا جاتا ہے، انہوں نے 2009 میں وزیر اعظم بننے کے بعد دائیں بازو کی جماعتوں پر پابندی لگوانے میں اہم کردار ادا کیا اور ایک متنازع ٹربیونل قائم کیا جس نے 1971 میں پاکستان سے آزادی کی جنگ میں مبینہ جرائم کے ارتکاب پر سزائیں دینی تھیں، یہ ٹربیونل بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مذہبی پارٹی جماعت اسلامی اور دائیں بازو کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے کئی رہنماؤں کو پھانسی اور عمر قید کی سزائیں سنا چکا ہے، جن میں سے کئی کی سزاؤں پر عملدر آمد بھی ہوچکا ہے۔ یاد رہے کہ 1971 میں پاکستان سے علیحدگی کے 3سال بعد ایک سہہ فریقی معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت جنگ میں پاکستان یا باغیوں کا ساتھ دینے والوں کے لیے عام معافی کی شرط شامل تھی مگر آزادی کے 45 سال بعد سزاؤں کا اعلان اور جماعت اسلامی پر پابندی کو عالمی ماہرین بنگلہ دیش میں انتہا پسندی کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔