وزیراعظم پاکستان اور صوبائی وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے کوئٹہ کو خوبصورت بنانے کے لئے خصوصی گرانٹ کے اعلانات کیے تھے ابتدائی چند دنوں میں میونسپل کارپوریشن کی کچھ گاڑیاں سڑکوں پر کچرا لے جاتے ہوئے ضرور دکھائی دیئے اور کچھ سینٹری کارکن صفائی کے کام میں بعض علاقوں میں مصروف ضرورنظر آئے مگر صرف چند دنوں کے لئے ، اس کے بعد وہ سب دوبارہ منظر سے غائب ہوگئے ۔ غالباً پیسہ ختم کھیل ختم والا معاملہ ہوگیا ہے ۔ میونسپل حکام نے روپیہ پیسہ چند دنوں میں ختم کیا ہے گمان ہے کہ وہ مزید رقم کا مطالبہ کریں گے۔ ہم نے ان کالموں میں مطالبہ کیا تھا کہ ان تمام اخراجات کی باریک بینی سے نگرانی کی جائے تاکہ یہ رقم خرد برد نہ ہو کیونکہ ہمارے ملک میںآوے کا آوا بگڑا ہواہے یہاں سب کچھ ہونے کے امکانات ہر وقت موجود رہتے ہیں اس لئے چیف سیکرٹری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ٹیم تعینات کریں جو کوئٹہ شہر پر صفائی اور ستھرائی کے اخراجات کی نگرانی کرے ۔ اب عوام کو یہ بتایا جائے چند دنوں کی صفائی مہم کے بعد میونسپل کارپوزیشن کی کچرا اٹھانے والی گاڑیاں کہاں گئیں ، وہ سڑکوں پر کیوں نظر نہیں آرہے ؟ سینٹری کارکن بھی اہم ترین شاہراہوں سے غائب ہیں ۔ ہم نے یہ مطالبہ پہلے بھی کیا تھا اور اب دوبارہ کررہے ہیں کہ جس کسی وزیر ، افسر کے گھر سینٹری کارکن ڈیوٹی دیتے ہوئے پایا گیا تو اس وزیر اور افسر کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے وہ تمام حضرات اپنے گھروں میں صفائی اور ستھرائی کے انتظامات خود کریں کیو ایم سی کے عملہ سے کام نہ لیں ان کو عوامی مفاد میں ڈیوٹی سر انجام دینے دیں تاکہ کوئٹہ شہر صاف ستھرا رہے اور اس کے بعد ہی اس کو خوبصورت بنانے کا عمل شروع کریں۔ کرپٹ حکام نے کچرے کے ڈھیر پر کوئٹہ کو خوبصورت بنانے کا کام شروع کیا یعنی سرکاری رقوم خرچ کرنی شروع کردی حالانکہ پورا شہر گندہ ہے غلاظت ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے ۔ سریاب روڈ کے مکین صفائی کے عملے سے ناواقف ہیں انہوں نے کبھی کوئی سرکاری سینٹری کارکن سڑکوں اور گلیوں میں صفائی کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ صوبائی سیکرٹریٹ اور سول اسپتال کے باہر ہر دم گٹر ابلتے دیکھے جاسکتے ہیں ہر طرف بیماری پھیلانے کا انتظام میونسپل حکام نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے کہ ہر چند گھنٹے بعد گٹر ضرور ابلے گا اور پورے علاقے میں تعفن پھیلائے گا ۔اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کوئٹہ کو خوبصورت بنانے کا عمل اس وقت تک روکا جائے جب تک عوام الناس کو بنیادی صحت اور صفائی کی سہولیات حاصل نہیں ہوتیں۔ اس دفعہ ایم پی اے حضرات کے فنڈز کو روک کر سریاب روڈ کے تمام رہائشی علاقوں کو پانی کی فراہمی اور نکاسی کا اچھا نظام فراہم کیاجائے ، سیوریج سسٹم تعمیر کی جائے ، اور دس لاکھ کی آبادی کو بھی صحت و صفائی کی سہولیات فراہم کریں ۔بڑے افسوس کا مقام ہے کہ سریاب کے دس لاکھ سے زائد مکین بنیادی سہولیات سے ستر سال سے محروم ہیں حالانکہ بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے طاقتور مراکز اس علاقے میں ہیں ۔ اس لئے نئے سال کے بجٹ میں ایک بہت بڑی رقم اور وہ بھی اربوں میں رکھی جائے تاکہ سیوریج کا پورا نظام صرف دو سالوں میں مکمل ہوجائے اور غالباً صوبائی حکومت کا 1985ء سے لیکر اب تک کا پہلا کارنامہ ہوگا کیونکہ ایم پی اے حضرات ترقیاتی بجٹ پر 1985سے لیکر آج تک قابض ہیں ۔
کوئٹہ کو خوبصورت بنانے کا خواب
وقتِ اشاعت : June 7 – 2016