|

وقتِ اشاعت :   June 8 – 2016

صوبائی چیف سیکرٹری نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صوبے میں 77فیصد آمدنی غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ ہورہی ہے ۔ صرف 23فیصد رقم ترقیاتی کاموں کے لئے بچ جاتی ہے ۔ بلوچستان کا سالانہ میزانیہ کا حجم 200ارب روپے سے زیادہ ہے یہ سب این ایف سی ایوار ڈکی برکت ہے ورنہ صوبے نے گزشتہ چالیس سالوں میں اپنے آمدنی میں اضافے کی کوشش نہیں کی ۔ صوبائی حکمران زیادہ دباؤ وفاق پر ڈالتے رہے کہ ان کی رقوم میں اضافہ کیاجائے ۔ دوسری صورت میں اس بات کی کبھی کوشش نہیں کی گئی کہ اخراجات میں کمی کی جائے یا صوبائی آمدنی میں اضافہ کیاجائے ۔ پچاس ارب سے زیادہ کا ترقیاتی بجٹ بہت بڑی رقم ہوتی ہے لیکن اس کے مثبت اثرات کہیں نظر نہیں آتے کہ صوبے میں روزگار کے مواقع پیدا کیے گئے ہیں یا صوبے کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے جس کو ترقیاتی کام کے لئے استعمال میں لایا جائے ۔ 1985ء کے غیر سیاسی انتخابات کے بعد بلوچستان زیادہ شدت اورتیز رفتاری کے ساتھ تباہی کی جانب گامزن ہے صوبے میں کوئی ایسی قوت نہیں ہے جو اس خودکشی کے عمل کو روکے یا دوسرے الفاظ میں بد عنوانی کا خاتمہ کرے اور معیشت کو ترقی دے تاکہ بلوچستان سے پسماندگی ، غربت اور بے روزگاری کو ختم نہیں تو کم سے کم کیاجائے ۔ جب سے بلوچستان ایک تاریخی صوبے کے حیثیت سے بحال ہوا ہے زراعت پر ٹیکس کی وصولی دس لاکھ روپے تھی اور آج 45سال گزرنے کے بعد بھی زراعت سے صوبے کی آمدنی اتنی ہی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے صوبے میں ٹیکس ادا کرنے کی کوئی روایت اور کلچر نہیں ہے ۔ بعض علاقوں میں اس کو اب بھی جبری وصولی گردانا جاتا ہے ۔ ساتھ ہی صوبے میں اسمگلنگ عام ہے بلکہ صوبے کی پوری معیشت کا دارو مدار اسمگلنگ پر ہے ۔ اس سے صرف سرحدی محافظین اور اسمگلر فائدہ اٹھاتے ہیں عام لوگوں کو کچھ نہیں ملتا اسمگلنگ کو ترقی کے عمل کو روکنے کے لئے استعمال میں لایا جارہا ہے ہر چیز اسمگل ہو کر آتی ہے لہذا اس کو ملک کے اندر بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ ملکی اشیاء کے مقابلے اسمگل شدہ اشیاء زیادہ سستی ہوتی ہیں ۔ بلوچستان میں شاید پاکستانی اشیاء کی خرید و فروخت پر غیر اعلانیہ پابندی ہے ۔ دکانداروں کے پاس صرف اور صرف اسمگلنگ کا سامان فروخت کرنے کیلئے ہے ۔ یا نقلی اور جعلی اشیاء کی فروخت عام ہے ۔ آج ہی کے اخبارات میں ہے کہ پانچ فیکٹریاں پکڑی گئیں جہاں پر جعلی ناموں سے آئسکریم تیار ہو کر فروخت کی جارہی ہے غرضیکہ صوبائی حکومت کے پاس ایسا کوئی منصوبہ نظر نہیں آتا جس سے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی جائے یا صوبے کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے تاکہ ترقیاتی عمل کے لئے زیادہ سے زیادہ وسائل دستیاب ہوں ۔ ہمارا یہ مشورہ ہے کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کی افادیت مکمل طورپر ختم ہوچکی ہے اس لئے اس کو ختم کیا جائے اور اس کے بجائے طویل مدتی منصوبہ بندی معاشی ماہرین کی نگرانی میں کی جائے۔ صوبے میں وزراء اور صوبائی اسمبلی کے اراکین انتظامی اور معاشی منصوبہ بندی کے معاملات میں مداخلت بند کردیں صرف اپنی رائے اسمبلی کے فلور پر پیش کریں یہ حکومت کی مرضی پر منحصر ہوگی کہ ان کو تسلیم کیاجائے یا نہیں اور وزیر کی صورت میں وہ یہ کردار صرف اور صرف وزارتی کونسل کے اجلاس میں اپنی سفارشات پیش کریں ۔ اس کا انتظامی معاملات میں کوئی قانونی کردار نہیں ہے ۔ ان معاملات میں قانون پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے اور وزراء کو قطعاً انتظامی ، مالی اور معاشی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہ دی جائے ایسے اقدامات سے ہی بڑے پیمانے پر کرپشن کو روکا جا سکتا ہے سرکاری خزانے کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکتاہے اور غیرترقیاتی اخراجات میں کمی لائی جاسکتی ہے جب وزراء کو غیر ضروری اور غیر سرکاری دوروں سے روکا جائے گا۔