|

وقتِ اشاعت :   June 9 – 2016

قیمتوں پر کنٹرول، اشیائے ضرورت کی فراوانی اور ان کے معیار پر کبھی اور کسی دور میں توجہ نہیں دی گئی خصوصاً بلوچستان میں جنگل کا قانون رائج ہے ۔ جعلی اشیاء کے انبار تقریباً ہر دکان اور اسٹور میں وافر مقدار میں دستیاب ہیں وجہ یہ ہے کہ کمپنی کی اشیاء پر منافع کی شرح دس سے بیس فیصد تک ہے جبکہ جعلی اشیاء میں منافع کی شرح ستر سے لے کر اسی فیصد ہے ۔ زیادہ منافع کے لالچ میں دکاندار جعلی اشیاء فروخت کررہے ہیں ۔ اسی طرح بغیر لائسنس کے میڈیکل اسٹورز جعلی ادویات فروخت کررہے ہیں ۔ سالوں میں ایک آدھ دکاندار یا جعلی اشیاء تیار کرنے کی فیکٹری پکڑی جاتی ہے ۔ عوام الناس کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ جعلی اشیاء تیار کرنے والوں کا کیا بنا ۔ ایسی صورت حال میں مقامی عدالتیں اور پولیس مک مکاؤ کی طرف گامزن نظر آتے ہیں ۔ ورنہ کسی کو سزا ہوجائے اور عوام الناس کو کانوں کان خبر نہ ہو اور لوگ لا علم رہیں یہ نا ممکن سی بات لگتی ہے حکومت کاکام صرف اور صرف عوام کی خدمت کرنا ہے ان پر حکمرانی نہیں۔ سب سے پہلے حکومت کا کام بلا کسی امتیاز کے لوگوں کے جان و مال کا تحفظ ہے چاہے وہ حکومتی پالیسیوں کا حامی ہو یا مخالف ، اس کی جان ، مال ، عزت و آبرو کی حفاظت حکومت اور حکومتی اداروں کا فرض بنتاہے۔ اس کے بعد حکومت کا کام عوام الناس کی خدمت کرنا ہے ۔ اسمیں عوام کی بنیادی ضروریات کے علاوہ معیاری اشیاء کی تیاری اور لوگوں تک مناسب دام پر رسائی ضروری ہے ۔ حکومت اسی کام سے غافل ہے صرف ماہ رمضان میں ایک مجسٹریٹ اور چند پولیس کے اہلکار حرکت میں نظر آتے ہیں اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں وہ رمضان کے پہلے چند روز تاکہ لوگوں کو گمراہ کیا جائے اور ماہ کے بقیہ دنوں میں لوٹ مار کی کھلی اجازت دی جائے ۔ مہنگائی کا طوفان ایک تسلسل سے جاری ہے اور آئندہ سالوں تک جاری رہے گا کیونکہ اس بات کو حکومتی ذرائع اہمیت ہی نہیں دیتے بلکہ بعض اہم اہلکار اس کو کار زیاں سمجھتے ہیں اوراس پر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے اس لئے بلوچستان کے عوام کو مہنگائی کا بوجھ خندہ پیشانی سے اٹھانا پڑے گا اور حکومت وقت سے کوئی شکایت بھی نہیں کرنی ہوگی غیر معیاری اور جعلی اشیاء مستقل طورپر بازاروں اور دکانوں پر فروخت ہوتی رہیں گی اور حکومت اور اس کے اہلکار ان کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے ۔ چونکہ بلوچستان میں جنگل کا قانون نافذ ہے اور یہاں کوئی غیر ملکی غیر قانونی طورپر پر آکر کسی بھی قسم کا کاروبار بلا کسی روک ٹوک کے کرسکتا ہے کسی بھی وقت وہ جعلی اشیاء تیار کر سکتا ہے دکان لگا کر جعلی اشیاء فروخت کر سکتا ہے اور دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹ سکتا ہے اگر پکڑا گیا تو رشوت دے کر چھوٹ جاتا ہے اور دوبارہ اپنا جعلی کاروبار شروع کر سکتا ہے بعض غیر ملکی تارکین وطن تو اہلکاروں کے لاڈلے ہیں ان پر کوئی ہاتھ ڈال نہیں سکتا کیونکہ پاکستان آ کر ان کو لوٹ مار کے زیادہ بہتر مواقع ملے ہیں مختصراً بلوچستان میں بڑے پیمانے پر جعلی اشیاء تیار ہونگی اور فروخت ہونگی ۔ صرف اسی وجہ سے لوگوں کو روزگار نہیں ملے گا وجہ اسمگلنگ اور جعلی اشیاء کی تیاری اور فروخت ہے ۔ اس سارے عمل میں ریاست پاکستان اور اس کے ادارے کہیں بھی نظر نہیں آتے نہ ہی ان معاشی سرگرمیوں میں ریاست کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور نہ ہی لوگوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے۔ بلوچستان ویسے پسماندہ رہے گا صوبے میں بے روزگاری اور غربت کا ہی راج رہے گا۔