آنے والے سال کا بجٹ بہت ساری امیدوں کے ساتھ گزشتہ سالوں کی بہ نسبت ایک بہتر بجٹ ہونے کے اشارے ملے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے خود یہ اشارے دئیے ہیں کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ عوام دوست ہوگا اس کے بعد کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں اس بار کوئٹہ میں رسائی آب کا منصوبہ سرفہرست ہوگا جس پر صوبائی حکومت تقریباً دس ارب خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ اس طرح ریل کے ماس ٹرانزٹ نظام کو بھی رائج کیاجارہا ہے جس پر پہلے سال میں دو ارب خر چ ہونے کا امکان ہے امید ہے کہ اس رقم میں خورد برد نہیں ہوگی اور یہ رقم صرف اور صرف عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہوگی اس میں حتی الامکان کرپشن کی گنجائش نہیں رکھی جائے گی ۔ یہ سارے منصوبے گزشتہ روایات سے ہٹ کر بنائے جارہے ہیں شاید اس میں ایم پی اے حضرات اور وزراء کا زیادہ عمل دخل نہیں ہوگا ان پر عمل ماہرین کی نگرانی میں ہوگا جو ان منصبوں میں سیاہ اور سفید کے مکمل طورپر ذمہ دار ہونگے۔ ظاہر ہے کہ اس بار ہر ایم پی اے کو پچیس کروڑ یا اس سے زائد متوقع رقم ملنے کا امکان نہیں ہے وہ اس بار سیاسی دباؤ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے ۔ انہوں نے سابق وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ کا حشر دیکھ لیایہ کارروائی کسی دوسرے کے خلاف کسی بھی موقع پر ہوسکتی ہے اور مزید طاقتور لوگ گرفتار ہوسکتے ہیں اگر وہ کرپشن میں ملوث پائے گئے دوسرے الفاظ میں سیاسی دباؤ شاید اس بار کام نہ آئے اجلاس میں بجٹ اہداف کو تبدیل کرنے کی کوشش کی بھرپور مزاحمت ہوسکتی ہے اور حکومت کوئی بھی ممکنہ قدم اٹھا سکتی ہے جس میں اسمبلی کو معطل کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے ا سلئے بلوچستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں تبدیلی کے آثار نظر آرہے ہیں اب توجہ صرف اور صرف عوام کی فلاح اور بہبود پر ہوگی ہمیشہ کی طرح خواص کے مفادات کا تحفظ نہیں ہوگا اس کے بر خلاف پالیسی ملک کو تباہی کی جانب لے جا سکتی ہے جو خوفناک ہوگا جس میں پورا نظام لپیٹ میں آسکتا ہے نہ کوئی وزیر رہ سکے گا اور نہ ہی ایم پی اے ، اس لئے امید ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے اراکین اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو پس پشت ڈال کر تمام وسائل صرف اور صرف عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کریں گے ، تمام گٹر اسکیم جن سے نہ لوگوں کو فائدہ پہنچا اور نہ ہی ریاست کو ان تمام کو بند ہونا چائیے ، اس پالیسی کا اظہار بھرپور ہونا چائیے خصوصاً دوردراز علاقوں کے رہنے والوں کو بھی وہی تمام سہولیات میسرہوں جو کوئٹہ کے شہریوں کو دئیے جارہے ہیں کوئٹہ میں سرکاری شعبے میں آٹھ بڑے سرکاری اسپتال ، دوردراز علاقوں کے لئے ایک بھی نہیں۔ ماہر معالج کوئٹہ میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں کوئی ماہر طب اپنے ہی گھر اور علاقے میں جانا نہیں چاہتا کیونکہ وہاں پر لاکھوں کروڑوں کی آمدنی نہیں ہے اس لئے کوئٹہ کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں میڈیکل کالج ، پوسٹ گریجویٹ کالج اور ہسپتال بنائے جائیں تاکہ دوردراز علاقہ کے لوگوں کو بھی مساوی صحت کی سہولیات فراہم ہوسکیں س۔ کوئٹہ کو اکیلے انتظامیہ کا مرکز نہیں ہونا چائیے ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز اور اضلاع میں انتظامی مشینری کو بہتر بنایا جائے وہاں پر تعینات افسران اور اہلکاروں کو زیادہ بہتر سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وسائل سے محروم دوردراز علاقے کے لوگ کوئٹہ کی طرف دیکھنا بند کردیں ۔ایک اچھی انتظامی مشینری کے قیام کے لئے اس بجٹ میں بھی بہت بڑی رقم مختص ہونی چائیے تاکہ حکومت کی جانب سے سہولیات کی فراہمی میں کوئی امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے۔ یہ نئے بجٹ کے خدوخال ہونے چائییں اور آخر میں کسی ادارے یا اس کے اہلکار کو یہ حق اور اختیار نہیں ملنی چائیے جس سے انتظامی امور میں خلل واقع ہو یا انتظامی امور کے نگہبانوں کو حراساں کیا جا سکے ہر ادارہ اپنے قانونی حدود میں کام کرے اور دوسرے ادارے کے کام میں مداخلت نہ کرے تاکہ نظام زندگی اپنے ربط کے ساتھ چلتا رہے ۔
بجٹ پالیسی میں خوشگوار تبدیلی
وقتِ اشاعت : June 10 – 2016