پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے نوشکی کے قریب امریکی ڈرون حملے پر ایک بار پھر سخت احتجاج کیا اور یہ بر ملا کہا کہ یہ امریکی حملہ پاکستان کی سلامتی پر کیا گیا ہے اس ڈرون حملے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور ہلاک ہوئے تھے ۔ وہ ایران کی سرحد عبور کرنے کے بعد پاکستان میں داخل ہوئے تھے کہ امریکی جاسوس طیارے نے ان کا پیچھا کیا اور احمد وال نوشکی کے قریب ان پر میزائل حملہ کیا جس میں وہ ٹیکسی کے ڈرائیور سمیت موقع پر ہی ہلاک ہوگئے ۔ واقعات کے فوری بعد امریکا نے اعلان کیا کہ انہوں نے افغان طالبان کے سربراہ کو ہلا ک کر دیا ہے اور افغانستان کے انتظامیہ کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے بھی اس کی فوری تصدیق کردی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ افغان اور امریکی جاسوس ملا اختر منصور کا پیچھا کررہے تھے جب وہ 600کلو میٹر سفر کرنے کے بعد احمد وال کے قریب پہنچے تو ان پر ڈرون حملہ کیا گیا، پہلے تو پوری پاکستانی قوم اس حملہ پر حیران اور ششدر رہ گئی بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ان کے پاس پاکستانی سفری دستاویزات پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی تھے جو کہ انہوں نے جعلی طورپر بنوائے تھے ۔ شروع کے چند دن پاکستانی حکام حیران و ششدر تھے اور معذرت خواہاں رویہ بھی اپنائے ہوئے تھے جب آسمان سے بادل چھٹ گئے اس کے بعد ہی حکومت پاکستان نے اس معاملے پر ایک سخت موقف اپنایا عسکری اور سیاسی قیادت نے یک زبان ہو کر اس کو پاکستان کی سلامتی پر حملہ قرار دیا۔ پاکستان کا احتجاج جائز ہے کیونکہ پاکستان کی سرزمین پر غیر ملکی بلکہ امریکی ڈرون نے بغیر کسی اجازت کے حملہ کیا یہ حملہ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری پر تھا جس پر احتجاج ضروری ہے ۔ اس لئے ملک کے بعض علاقوں میں کچھ لوگوں نے امریکی ڈرون حملے کے خلاف جلوس نکالے اور بعض مقامات پر امریکی قومی پرچم بھی جلا یا گیا اس میں بعض مذہبی پارٹیاں پیش پیش تھیں یہ تمام باتیں اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ ہمارے امریکا کے ساتھ تعلقات ایک مشکل ترین مرحلے میں داخل ہورہے ہیں اس میں یہ ممکن ہے کہ امریکی حکومت کے ساتھ ساتھ امریکی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات پراثرات مرتب ہوں یا یہ بھی ممکن ہے کہ امریکا کو پورے خطے سے بے دخل کرنے کے لئے ایران کے ساتھ پاکستان کی کسی حد تک تعاون ہو اور خطے میں امریکی پالیسی کی متحد ہو کر مخالفت کی جائے ۔بہر حال یہ امکانات موجود ہیں کہ پاکستان صرف امریکی معاندانہ رویہ کی وجہ سے ایران کے قریب جا سکتا ہے اور ایک متحدہ حکمت عملی اپنا سکتا ہے جس سے سعودی مفادات کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے بہر حال پاکستان کی موجودہ امریکا مخالف پالیسی کے دوررس نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں کیونکہ امریکا نے کھل کر بھارت کی ہر طرح سے حمایت کی ہے اور اس کو جوہری سپلائی گروپ کا رکن بھی بنا یا جارہا ہے۔ ادھر امریکی صدر نے افغانستان میں امریکی افواج کو مزید اختیارات دئیے ہیں کہ وہ دہشت گردو ں کے خلاف فضائی قوت کا بھی استعمال کر سکتے ہیں عام طورپر تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کشیدہ ہوسکتے ہیں خصوصاً جب امریکی طیارے ،امریکی ڈرون کے بعد پاکستان کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کریں گے ایسی صورت میں پاکستان سخت جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے ۔اور افغان افواج کو پاکستان کی علاقائی سلامتی کا خیال رکھنا پڑے گا امریکا کی شہہ پر وہ پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز کارروائیاں نہ کرے ۔