|

وقتِ اشاعت :   June 14 – 2016

سندھ کے وزیر خزانہ نے 869ارب روپے کا صوبائی بجٹ پیش کردیا جس میں سے 225ارب روپے ترقیاتی پروگرام اور دوسری سہولیات فراہم کرنے پر مختص کیے ہیں یہ 14ارب روپے خسارے کا بجٹ ہے جبکہ سندھ میں آمدنی کا اندازہ 854ارب روپے ہے ۔ اس سے وفاق سے وصولی 561ارب روپے جبکہ صوبائی آمدنی 166ارب روپے ہے ۔ سندھ اسمبلی میں شور وغوغا کے دوران وزیر خزانہ سید سردار علی شاہ نے بجٹ پیش کیا، ہمیشہ کی طرح ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی نے احتجاج کیا اور اپنے حلقوں کے لئے زیادہ رقوم کا مطالبہ کرتے رہے۔ وزیر خزانہ نے بجٹ کو’’عوام دوست‘‘ قرار دیا اور اعلان کیا کہ سندھ کی عوامی حکومت اس سال پچاس ہزار افراد کو روزگار فراہم کر ے گی ۔ ان میں بیس ہزار افراد سندھ پولیس میں بھرتی کیے جائیں گے ، دس ہزار افراد شعبہ تعلیم میں اور 3500افراد صحت کے شعبہ میں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ سندھ کی حکومت آئندہ مالی سال میں تعلیم کے شعبے میں 160ارب روپے خرچ کرے گی اور تعلیم کا معیار بلند کرنے کی کوشش کی جائے گی، امن وامان کے شعبہ میں بہتری لانے کے لئے 82ارب روپے خرچ ہونگے، ان میں جیلوں کی حالت بہتر بنانا ، پولیس اور رینجرز کے اخراجات شامل ہوں گے جبکہ صحت کے شعبہ میں66ارب روپے خرچ ہونگے ۔اس بجٹ میں چند ایک سہولیات بھی فراہم کی گئیں ہیں ان میں کم سے کم اجرت 13ہزار سے بڑھا کر 14ہزار کردی گئی ۔ پنشن میں دس فیصد کا اضافہ ، کراچی کی ترقیاتی اسکیموں کے لئے 50ارب روپے الگ رکھے گئے ہیں اس طرح کراچی ڈویژن کے لئے 53ارب روپے، حیدرآباد ڈویژن کے لئے 22.7ارب روپے ، سکھر ڈویژن کے لئے 27.3ارب روپے ، لاڑکانہ ڈویژن کے لئے 26.9ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ سابقہ نواب شاہ ڈویژن کے لئے 18.9ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے تاہم بعض ضروری خدمات پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے ۔مجموعی طورپر تیرہ فیصد سیلز ٹیکس لگایا گیا ہے ۔ اس طرح سے سندھ میں سیلز ٹیکس کو 14فیصد سے کم کرکے تیرہ فیصدکردیا گیا ہے ۔ سندھ کے وزیر خزانہ نے اسمبلی کے فلور پر وفاقی حکومت کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا کہ وفاقی حکومت کو اس میں دلچسپی نہیں ہے نیا مالیاتی کمیشن تشکیل دیا جائے اور حکومت سندھ نے اس پر وفاقی حکومت سے سخت احتجاج بھی کیا ہے کہ وہ نیا مالیاتی کمیشن نہ بنانا چاہتی ہے اور نہ ہی نئے ایوارڈ پررضا مند ہے ۔ واضح رہے کہ این ایف سی ایوارڈ گزشتہ سال جون میں اپنی مدت پوری کر چکا ہے ۔ ایک سال بعد بھی وفاقی حکومت اس بات پر تیار نہیں کہ نیا مالیاتی کمیشن بنایا جائے اور جلد سے جلد نیا ایوارڈ نافذ کیا جائے ۔ ان غیر جمہوری رویوں اور فیصلوں میں چھوٹے صوبوں میں تلخی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ صوبوں کے مالی اور معاشی حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے اور صوبوں کو اپنی جائز آمدنی سے محروم رکھا جارہا ہے ۔ سندھ اس معاملے میں پیش پیش ہے ،اس کے ساتھ کے پی کے کا بھی یہی موقف ہے کہ پوری وفاقی حکومت صرف صوبہ پنجاب کے حقوق اور مفادات کی نگرانی کررہی ہے اور دوسرے چھوٹے صوبوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ امید ہے بلوچستان کی صوبائی حکومت سندھ اور کے پی کے نقش قدم پر چلے گی اور اپنے جائز معاشی اور مالی حقوق کی جنگ میں دیگر دو صوبوں کے ساتھ شریک ہو کر وفاق کو مجبور کرے گی کہ وہ نیا مالیاتی کمیشن بنانے کا اعلان کرے اور تمام صوبوں کو یکساں طورپر مالی وسائل تقسیم کیے جائیں تاکہ پسماندہ صوبوں میں غریبی ، بے روزگاری ، احساس محرومی اور پسماندگی کا جلد سے جلد خاتمہ ہو ۔