|

وقتِ اشاعت :   June 17 – 2016

اسلام آباد : پاکستان کے وزیرِ اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان طورخم سرحد پر گیٹ کی تعمیر کے لیے پرعزم ہے اور پاکستان نے کسی باہمی معاہدے یا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اسلام آباد میں جمعرات کو قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کو گیٹ کی تعمیر کے متعلق پیشگی آگاہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بارڈر مینجمنٹ سسٹم دونوں ملکوں کے لیے ضروری ہے کیونکہ سرحدی نظام میں بہتری سے سمگلنگ اور دہشت گردی کو روکنے میں مدد ملے گی۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ گیٹ کی تعمیر کا آغاز نومبر 2014 میں ہوا تھا۔ لیکن جب افغان حکام نے اس بارے میں خدشات کا اظہار کیا تو پاکستان نے افغان حکام کے ساتھ رابطہ قائم کرتے ہوئے انھیں اعتماد میں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے متعلقہ افغان حکام کو مطلع کیا گیا تھا کہ یہ تعمیرات پاکستانی حدود کی اندر کی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی جانب سے تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان باہمی معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ جبکہ دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ دو برسوں کے دوران دونوں ممالک اس بات پر مفتق ہوئے کہ پاکستان طورخم پر گیٹ کی تعمیر جاری رکھے گا۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے کسی جارحیت یا اشتعال انگیزی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ پاکستان کو اس کی طرف کی جانے والی فائرنگ کا جواب دینے پر مجبور کیا گیا۔ خیال رہے کہ گذشتہ اتوار کی رات پاکستان اور افغان فورسز کے درمیان سرحدی گیٹ کی تعمیر پر جھڑپوں کا آغاز ہوا تھا جس میں اب تک ایک پاکستانی فوجی افسر اور ایک افغان فوجی ہلاک جبکہ متعدد سکیورٹی اہلکار اور شہری زخمی ہو چکے ہیں اور سرحد کی بندش کی وجہ سے تجارت سمیت ہر قسم کی نقل و حمل معطل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ میں ایک فوجی افسر کی ہلاکت اور کئی اہلکار اور عام شہری زخمی ہوئے۔ انھوں نے بتایا کہ طورخم کے علاقے سے 180 خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ حکومت طورخم پر گیٹ کی تعمیر کے لیے پرعزم ہے کیونکہ اس سے بارڈر کنٹرول میں بہتری آئے گی اور سرحد پر نقل حرکت کو ریگولیٹ کیا جا سکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو بتایا تھا کہ یکم جون کو سرحد پر دستاویزات چیک کی جائیں گی۔ سرتاج عزیز نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتا ہے اور افغان حکام کو باہمی روابط کی بحالی کے لیے اسلام آباد دورے کی دعوت دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز انھوں نے افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر سے بات چیت کی اور انھیں اور وزیرخارجہ صلاح الدین ربانی کو حالیہ معاملات اور اعتماد کی بحالی کے لیے اسلام آباد دورے کی دعوت دی ہے،ادھر پاکستان نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد کی مینجمنٹ انتہائی ضروری ہے اور طور خم کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی گیٹ بنائے جائیں گے،پٹھان کوٹ معاملے پر پاکستان نے بھارت سے تعاون پر مبنی رویہ اپنایا اوراپنی تحقیقاتی ٹیم بھی بھارت بھیجی،بھارتی تحقیقاتی ٹیم کے دورہ پاکستان کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور اگر کوئی فیصلہ ہوا تو تمام قانونی نکات کو بھی مد نظر رکھا جائے گا،کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف میں نہ کوئی تبدیلی آئی ہے نہ آئے گی،سرحدوں پر چھوٹے موٹے مسائل چلتے رہتے ہیں،طور خم بارڈر پر کشیدگی کو جنگ کا نام نہ دیا جائے،پاکستان اور افغانستان صرف ہمسایہ ممالک ہی نہیں بلکہ تاریخی،مذہبی اور ثقافتی تعلقات میں بندھے ہیں،پاکستان ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے، جبکہ آئندہ ہفتے پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کا باقاعدہ رکن بھی بن جائے گا،ایران کاکل بھوشن یادوسے متعلق جواب انکے تعاون کاحصہ ہے۔اسلام آباد میں صحافیوں کو ہفتہ وار پریس بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کو 2 سال مکمل ہو چکے ہیں اور اس دوران ہماری فورسز نے بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر بریفنگ بھی دے چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔نفیس زکریا نے کہا کہ پٹھان کوٹ معاملے پر پاکستان نے بھارت سے تعاون پر مبنی رویہ اپنایا اور جے آئی ٹی کو بھارت میں جو معلومات ملیں ان کی روشنی میں تحقیقات جاری ہیں، پٹھان کوٹ کی بھارتی تحقیقاتی ٹیم کے دورہ پاکستان کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور اگر اس حوالے سے کوئی فیصلہ ہوا تو تمام قانونی نکات کو بھی مد نظر رکھا جائے گا۔ انکا کہنا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن ہمارا مقصد ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان صرف ہمسائے ممالک نہیں بلکہ دونوں تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلقات میں بندھے ہوئے ہیں، طور خم بارڈر پر کشیدگی کو جنگ کا نام نہ دیا جائے، ممالک کے درمیان تناؤ عام سی چیز ہے، سرحدوں پر چھوٹے موٹے مسائل ہوتے رہتے ہیں، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی باقاعدہ جنگ نہیں ہوئی لہذا اس معاملے میں سیز فائر کا لفظ استعمال کرناغلط ہے،دریں اثناء وفاقی وزیر برائے دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاک افغان بارڈر پر بارڈر منیجمنٹ کرنا ہماری سلامتی کے لئے بہت ضروری ہے۔ پاکستان ہر قیمت پر بارڈر منیجمنٹ چاہتا ہے اس بارڈر پر پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرناپڑی ہے۔ 30لاکھ افغان مہاجرین گزشتہ دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے تعلق افغانستان کے ساتھ اچھے نہ رہیں۔ آرمی پبلک سکول کے واقع میں ملوث لوگ افغانستان کی سرزمین پر مارے گئے۔ افغانستان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے ہم ان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان پاک افغان بارڈر پر بھارت ایران کی طرح کا بارڈر بنانا چاہتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمرات کے روز سینٹ کے اجلاس میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کی زمین پر 30لاکھ افغان مہاجرین رہتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری معیشت بہت متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان پاک افغان بارڈر منیجمنٹ کرنا چاہتا ہے اس کے لئے اگر کچھ علاقہ دینا یا کچھ علاقہ افغانستان لینا پڑے۔ پاکستان اور افغانستان ے بارڈر پر 78کراسنگ ہیں جبکہ 9کراسنگ اس وقت بند پڑی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی سالوں سے پاک افغان بارڈر پر واقعات ہورہے ہیں ان کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ بارڈر منیجمنٹ کی جائے اور بارڈر منیجمنٹ پاکستان کی سلامتی کے لئے بہت ضروری ہے۔