اسمبلی کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ اب اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اشرافیہ کے رکن بن گئے ہیں اور وہ سب اب قانون سے بالا تر ہیں وہ سب آج کل اپنے جائز اور قانونی مراعات اور حقوق کے تمام حدود کو پھلانگ کراپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھنے لگے ہیں جو ایک خطر ناک بات ہے۔ اسمبلی رکن کے پاس صرف اور صرف قانون سازی کے حقوق ہیں ،بجٹ بنانے کا اختیار ان کو نہیں ہے البتہ وہ مشورے ضرور دے سکتے ہیں بجٹ بنانا صرف اور صرف ماہرین معاشیات کا کام ہے اس کو کوئی نیم خواندہ شخص نہیں بنا سکتا ۔گزشتہ تیس سالوں سے خصوصاً غیر سیاسی انتخابات کے بعد سے اسمبلی کے اراکین نے اس صوبے میں بجٹ بنانا شروع کردیا اور اپنے اقلیتی وزرائے اعلیٰ کو بلیک میل کرنا شروع کردیا کہ ان کو زیادہ سے زیادہ ذاتی اسکیموں کے لئے فنڈز دئیے جائیں ۔ اپنی وزارت اعلیٰ بچانے کے لئے تمام اقلیتی وزرائے اعلیٰ نے ہمیشہ اراکین اسمبلی خصوصاً اپنے اتحادیوں کے دباؤ میں آگئے اور ان کو زیادہ سے زیادہ فنڈ دینا شروع کیا ۔ معاملہ اس حد تک گیا کہ صرف ایک رکن بلوچستان اسمبلی نے ایک ارب 80کروڑ روپے گزشتہ سال صرف اپنے ذاتی اسکیموں پر خرچ کیے۔ اراکین اسمبلی کا ذاتی ،، ترقیاتی ،، بجٹ پچاس کروڑ روپے سالانہ سے شروع ہوتا ہے اور ایک ارب اسی کروڑ روپے تک جاتا ہے ۔ یہ فنڈز کہاں خرچ ہوئے؟ کسی کو معلوم نہیں۔ اس کا کوئی اثر ہوا بالکل نہیں کیونکہ نہ اس ترقیاتی سرمایہ کاری سے نہ کسی کو روزگار ملا اور نہ ہی حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا ۔ اس طرح سے 1985ء سے لے کر آج تک تمام فنڈز ضائع ہوگئے ۔ کلیدی اتحادی پارٹی ہمیشہ بلیک میلنگ کرتی ہوئی پائی گئی موجودہ قومی مالیاتی ایوارڈ سے قبل اراکین اسمبلی کو چند کروڑ ،، ترقیاتی فنڈ ،، ملتے تھے جب نئے ایوارڈ کا اعلان ہوا تو اس وقت کے وزیر منصوبہ بنی اور ترقیات نے میری موجودگی میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں دھرنا دیا کہ ہر ایم پی اے کو کم سے کم پچاس کروڑ سالانہ دئیے جائیں ۔جب وزیراعلیٰ کو یہ خدشہ ہوا کہ اس کلیدی اتحادی کی حمایت کے بغیر ان کی حکومت نہیں چل سکتی تو مجبوراً ان کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ایم پی اے فنڈ دو گنا یا اس سے زیادہ ہوگا ۔اس طرح پورا مالیاتی کمیشن ایوارڈ کی پوری رقم اراکین اسمبلی پر خرچ ہوگئی یا حکومت بلوچستان نے اپنے ملازمین کو تنخواہیں دیں عوام کو کچھ نہیں ملا ۔ اب بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تو نہیں کاٹ سکتے البتہ ترقیاتی بجٹ کا تو صحیح استعمال کرسکتے ہیں ۔ ایم پی اے حضرات اسکیم کی نشاندہی کریں پہلے اس کے معاشی فوائد بتائیں کہ اس سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا اور حکومت کی آمدنی میں کتنا اضافہ ہوگا ۔ اس کے بعد ہی ان کی اسکیم منظور کی جائے ۔ ہم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ تمام 2250جاری سکیمیں منسوخ کی جائیں اور اس کی ساری رقم صرف اور صرف عوام کے فلاح و بہبود اور صوبے کی ترقی پر خرچ کیے جائیں۔ اس فنڈ سے کارخانے لگائے جائیں ، بڑے بڑے ڈیم بنائے جائیں اور بلوچستان میں موجود دو کروڑ ایکڑ زمین کو زیر کاشت لایا جائے ۔ کوئٹہ کی وادی کو ریگستان بننے سے بچایا جائے نئے ڈیم بنائے جائیں تاکہ زیر زمین پانی کا استعمال کم سے کم ہو ۔
اراکین اسمبلی صرف قانون سازی کریں
وقتِ اشاعت : June 19 – 2016