تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افغان حکومت نے وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کی دعوت مسترد کردی جس میں افغان وزیر خارجہ اور دیگر حکام کو اسلام آباد آنے اور سرحدی امور پر بات چیت کرنے کی دعوت دی گئی تھی ۔ دوسری جانب پاکستان اور افغانستان کے افسروں کے درمیان ایک سرحدی میٹنگ یا فلیگ میٹنگ ہوئی جو بے نتیجہ ثابت ہوئی ۔ افغان حکام ضرورت کے مطابق پہلے سرحد کھولنے اور آمد و رفت بحال کرنے کا مطالبہ کرتے رہے جبکہ پاکستانی حکام کا موقف یہ تھا کہ پہلے گیٹ کی تعمیر ہوگی اور اس کے مکمل ہونے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان آمد و رفت بحال کی جائے گی ۔ اس وجہ سے ہزاروں گاڑیاں اور مال بردار ٹرک گزشتہ چھ دنوں سے سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں ان میں جلد خراب ہونے والا زرعی اور خوردنی اشیاء بھی شامل ہیں جس سے عام لوگوں خصوصاً افغانوں کو زیادہ پریشانی ہے۔ افغانستان کی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ تورخم کی سرحد ہے جو گزشتہ ایک ہفتے سے شدید طریقے سے متاثر ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ سرحد کے دونوں جانب اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ سرحد آمدو رفت کے لئے کب کھلے گی ۔اس وجہ سے حکومت افغانستان پر عوام کا شدید دباؤ بڑھ گیا ہے کہ تاجروں اور دوسرے لوگوں کا روزانہ نقصان اربوں روپے میں ہے اس وجہ سے افغان حکام زیادہ پریشان نظر آتے ہیں ایک طرف وہ گیٹ کی تعمیر کی اجازت بھی نہیں دینا چاہتے اور دوسری طرف عوامی دباؤ کے تحت آمد و رفت کی بحالی بھی چاہتے ہیں۔ دوسری جانب امریکا نے واضح طورپر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ بات چیت اور پر امن ذرائع سے مسئلے کا حل نکالیں ،اس طرح سے امریکا نے اس بات سے صاف انکار کیاہے کہ وہ ان دونوں ممالک کے درمیان مصالحت کرائے گا۔ دونوں ممالک باہمی طورپر اپنے معاملات طے کر لیں اس کا صاف مطلب یہ نکالا جائے گا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بر قرار رہے گی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے ۔ سفید جھنڈے لہرانے کے بعد دونوں طرف سے فائرنگ کئی دنوں تک ہوتی رہی ۔سابق صدر حامد کرزئی اوردوسرے افغان رہنما ؤں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے یعنی موجودہ نازک صورت حال میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بر قرار رہے گی اس کا جلد اور دیر پا حل نظر نہیں آرہا ۔ البتہ ہمارا دوسرا ہمسایہ ملک ایران ہے شاید وہ اس معاملے میں مداخلت کرے اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصالحت کرائے ۔ظاہر ہے پاکستان اس قسم کی درخواست ایران سے باضابطہ نہیں کرے گا کیونکہ پاکستان سرحد کو متنازعہ ہی نہیں سمجھتا اور نہ ہی اس میں تبدیلی کا خواہاں ہے۔ افغانستان اس قسم کی درخواست ایران سے کر سکتا ہے کیونکہ تجارت اور آمد و رفت بند ہونے سے افغان عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔ یا پھرایران، ایک ایسا ہمسایہ جس کی سرحدیں دونوں ممالک سے لگتی ہیں وہ مداخلت کرے اور اپنے دونوں سرحدوں پر امن کو یقینی بنائی تاکہ پورے خطے کے استحکام کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو ۔
پاکستان ، افغانستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ
وقتِ اشاعت : June 20 – 2016