مجموعی طورپر موجودہ حکومت نے آئندہ مالی سال کے لئے ایک بہتر بجٹ پیش کیاجس میں کافی حد تک عوامی معاملات اور مشکلات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ایک خوش آئند قدم ہے ان میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ ، الاؤنس میں اضافہ ، کم سے کم اجرت میں اضافہ کے ساتھ کئی ایک چھوٹے بڑے منصوبے بنائے گئے جس میں صحت کی بہتر سہولیات اور تعلیمی اخراجات میں اضافہ کیا گیا ہے ۔خصوصاً اسکولوں کے اندر مختلف سہولیات کے ساتھ ساتھ صاف پینے کا پانی اور ہر اسکول میں ایک ہینڈ پمپ لگانے کی بھی تجویز دی گئی ہے ۔ کروڑوں روپے اسکولوں کیلئے فرنیچر ، لیب کے لیے ضروری کیمیائی مواد اور دیگر ضروریات کو خاص طورپر فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ سب سے زیادہ رقم تعلیم اور اس سے متعلقہ سہولیات کی فراہمی کے لئے رکھی گئی ہیں، اس کے بعد امن عامہ کو ترجیح دی گئی ہے جس میں عوام الناس کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس بجٹ میں یہ اعلان کیا گیا کہ ملک میں نئے تھانے اور پولیس چوکیاں قائم کی جائیں گی جو بڑھتے ہوئے شہری جرائم کا مقابلہ کریں گے اور عوام کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائیں گے ۔ بجٹ میں یہ بھی اعلان کیا گیا کہ مقامی پولیس اور لیویز کے افسران اور اہلکاروں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تربیت دی گئی اور ان کی تعداد 1500ہے جو امید افزاء بات ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے نوجوان دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تربیت حاصل کر چکے ہیں اور ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ بلوچستان میں قیامت خیز گرمی میں بعض علاقوں میں بیس سے 22گھنٹے لوڈشیڈنگ جاری ہے، ایسی صورت حال میں اسپتالوں اور بی ایچ یو زکا کام کرنا محال ہے اس لئے اس بجٹ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ کم سے کم پچاس اسپتالوں اور بی ایچ یوز کو شمسی توانائی فراہم کی جائے گی۔ اسی طرح یونیورسٹیوں کو بھی شمسی توانائی فراہم کی جائے گی اور یہ دونوں سیکٹر لوڈشیڈنگ سے آزاد ہوجائیں گے اور دن رات اپنا کام جاری رکھیں گے۔ اسی طرح حکومتی عمارتوں اور سرکاری دفاتر میں بھی شمسی توانائی فراہم کی جائے گی تاکہ ریاست کا کاروبار جاری رہے اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اس میں خلل نہ آئے۔ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ کوئٹہ کے تمام اسٹریٹ لائٹس کو بھی جلد سے جلد یا مرحلہ وار شمسی توانائی سے چلایاجائے تاکہ شہر میں کاروبار زندگی متاثر نہ ہو بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ ، لائن لاسز اور آئے دن کی بریک ڈاؤن کا واحد حل شمسی توانائی ہے۔ ٹرانسمیشن لائن کی ترکیب ناکام ہوچکی ہے ۔ ویسے بھی بلوچستان میں ٹرانسمیشن لائن صرف 600میگاواٹ بجلی کا لوڈ برداشت کر سکتی ہے جبکہ بلوچستان کی موجودہ ضروریات 1600میگا واٹ ہے گزشتہ ستر سالوں سے یہ مسئلہ حل نہ ہوسکا ۔ ایران سے بجلی خریدنے کے لئے ابھی تک زاہدان ، کوئٹہ اور دوسری جانب چاہ بہار سے گوادر تک ٹرانسمیشن لائن جان بوجھ کر تعمیر نہیں کی گئی حالانکہ ایران بجلی کا تار پاکستان کے سرحدوں کے اندر پہنچ چکا ہے ۔ شاید حکومت پاکستان ایران سے کسی بھی قیمت پر بجلی خریدنے کو تیار نہیں اور بلوچستان میں اندھیرا ہی رہے گاکم سے کم مستقبل قریب میں روشنی کے آثار نہیں ۔بجٹ میں سب سے اہم نکات بڑی بڑی اسکیموں یا میگا پروجیکٹس کا شامل ہونا ہے ۔ ان میں ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں زیادہ بہتر سہولیات ، کوئٹہ کے لئے دریائے سندھ سے پانی کی سپلائی ، ریل ماس ٹرنزٹ ٹرین اور گرین بس اسکیم شامل ہیں کوئٹہ آبنوشی اسکیم پر عمل درآمد سے پہلے سے ہمارا یہ مشورہ ہے کہ حکومت کوئٹہ میں پانی کی قلت دور کرنے کے لئے گندے پانی کو صاف کرکے ان کو دوبارہ استعمال میں لائے ۔ اس پانی کو باغات ، زراعت اور صفائی کے کام میں لایاجائے جیسا کہ دنیا بھر میں ہورہاہے اور اس اسکیم پر عمل درآمد سے زیر زمین پانی پر دباؤ کم ہوجائے گا اور لوگوں کو پانی کی ضروریات کسی حد تک پوری ہونگی۔ اس لئے جنگی بنیادوں پر یہ اسکیم تیار کی جائے۔ کوئٹہ شہرمیں اس کے لئے بنیادی ڈھانچہ حبیب نالہ اور دوسری سہولیات پہلے سے موجود ہیں جن کو استعمال میں لا کر لوگوں کی مشکلات میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔
بلوچستان کا ایک بہتر بجٹ
وقتِ اشاعت : June 21 – 2016