|

وقتِ اشاعت :   June 22 – 2016

حزب اختلاف کی پارٹیوں نے حکومت کا یہ موقف یکسر مسترد کردیا کہ تمام لوگوں کا پانامہ لیکس کے معاملے میں احتساب ہو سوائے وزیراعظم کے ، جبکہ حزب اختلاف کی تمام پارٹیاں اس بات پر متفق ہیں کہ احتساب کا عمل وزیراعظم سے ہی شروع ہو کیونکہ ان کا خاندان اور بچے کرپشن میں مبینہ طورپر ملوث پائے گئے ہیں چونکہ وہ ملک کے انتظامی سربراہ ہیں اور ملک کے منتخب وزیراعظم ہیں اس لئے ان کا احتساب سب سے پہلے ضروری ہے اور یہ احتساب جلد سے جلد ہو ۔ اس میں دیرنہ کی جائے بلکہ حزب اختلاف کے رہنما وزیراعظم کے اس بیان کا بھی حوالہ دے رہے ہیں جس میں انہوں نے خود کو پہلے احتساب کے لئے پیش کیا تھا اور حکومتی ٹیم اس کی مخالفت کررہی ہے دونوں فریقوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ بات چیت کے ذریعے ٹی او آر کا معاملہ طے کریں گے ۔ سپریم کورٹ نے بھی پہلے قانون سازی کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ بعد میں سپریم کورٹ اس پر غور کرے گی کہ کوئی عدالتی کمیشن بنایا جائے یا نہیں ۔ اس سے قبل حکومت نے سابق ججوں پر مشتمل کمیشن بنانے کی کوشش کی تھی جو کہ ناکام ہوگئی کیونکہ معاملہ تحقیقات سے زیادہ سیاسی رنگ اختیار کر گیا جس سے خوفزدہ ہو کر تقریباً تمام ریٹائرڈ ججوں نے ذمہ داری لینے سے انکار کرکے حکومت کو سخت مشکل میں ڈال دیا تھا اس کے بعد ہی وزیراعظم یا مسلم لیگ کی حکومت نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔ اب حکومت دوسری رخ اختیار کرتی نظر آرہی ہے حزب اختلاف نے حکومت کا موقف یکسر مسترد کردیا ہے اور اس بات پر مکمل طورپر ڈٹ گئی ہے کہ وزیراعظم کا احتساب ہر صورت میں ہو اور جلد سے جلد ہو سابقہ کمیشنوں کی طرح اس میں سالوں نہ لگ جائیں اور یہ معاملہ بھی دوسرے کمیشن رپورٹس کی طرح حکومت کی مرضی بن جائے کہ اس کے فیصلوں کو شائع کریں اور عوام الناس کو مطلع کریں یاپھر قومی سیکورٹی کے راز بنا کر عوام الناس کوان فیصلوں سے آگاہ نہ کریں ۔ سابقہ کمیشن رپورٹوں میں سے صرف 1971ء کی رپورٹ شائع کی گئی جس میں خان عبدالولی خان نے یہ الزام لگایا تھا کہ ان سے غلط باتیں منسوب کی گئیں اور ان کے موقف کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا تھا اس لئے 1971ء کی رپورٹ بھی متنازعہ ہوگئی تھی ۔ حزب اختلاف کے پاس گزشتہ کارروائی کے کافی شواہد موجود ہیں اس لئے وہ اپنے ٹی او آر جو متحدہ حزب اختلاف نے بنائے ہیں حکومت ان کو تسلیم کرے تاکہ معاملات کا حل جلد سے جلد سامنے آئے ۔ اس میں غیر ضروری تاخیر نہ ہو اب جو نئی صورت حال سامنے آئی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کے خاتمے کے بعد حزب اختلاف بات چیت کے بجائے سڑکوں کا رخ کرے گی تاوقتیکہ وزیراعظم اپنے رویے اور پالیسی میں تبدیلی نہ لائیں اگر حزب اختلاف کی تمام بڑی اور موثر پارٹیوں نے سڑکوں کا رخ کر لیا تو موجودہ حکومت چند دن کی مہمان ہوگی ۔ یہ زبردست احتجاج اورمظاہرے جس میں تمام بڑی پارٹیوں کے کارکن شریک ہوں گے وہ سب سیاست کا رخ دنوں میں بدل دیں گے ۔ حکومت مفلوج ہو کر اسلام آباد اور لاہور کے سیکرٹریٹ میں محصو ر ہوجائے گی شاید کوئی آسمانی قوت حکومت کو بچائے، اگر یہ طاقتور قوتیں حکومت کے خلاف صفا آرا ہوگئیں ۔ دوسری جانب پاکستان کے تعلقات بھارت اور افغانستان کے ساتھ کشیدہ ہوچکے ہیں ان کے درمیان زبانی کلامی جنگ شروع ہوچکی ہے نیز ایران سے تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہیں عوام میں ہر لحاظ سے مایوسی چھائی ہوئی ہے خصوصاً سیکورٹی اور معیشت کے حوالے سے بھی اس لئے عوام الناس حکومت کی مدد کو نہیں آئے گی۔ ادھر مسلم لیگ کے اندر بڑی تعداد میں اراکین پارلیمان حکومت سے سخت ناراض ہیں اور وہ حزب اختلاف کا ساتھ دیں گے۔