کراچی ، کوئٹہ اور ملک کے دوسرے شہروں میں شہری جرائم میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے معلوم ہوتا ہے کہ جرائم کی دنیا میں زیادہ تر نئے لوگ وارد ہورہے ہیں جن کے متعلق مقامی پولیس کو معلومات نہیں ہیں اور نہ پولیس نے زیادہ تگ و دو کرنے کی زحمت گوارا کی کہ ان سے متعلق معلومات حاصل کی جائیں تاکہ ان کا صفایا بروقت ہو سکے ۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ زیادہ طاقتور لوگ ، گروہ ان جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کررہے ہیں کم سے کم کراچی کے علاقے لیاری میں تو یہی ہورہا ہے جہاں جرائم پیشہ گینگز نے پوری انسانی آبادی کو یرغمال بنایا۔ کس نے پولیس کو تھانوں کے اندر محدود کردیا اور جرائم پیشہ افراد کو کھلی چھٹی دی کہ وہ لوگوں کے ساتھ جو مرضی کرے ان کو اس بات کی با قاعدہ شہہ دی گئی کہ وہ دکانوں ، کاروباری مراکز ، مزدوری اور محنت کی جگہ کو نشانہ بنائے اور بھتہ وصول کیاجائے ۔اس طرح سے مقامی معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مقصد عوام الناس کو سزا دینا تھا اور جرائم پیشہ افراد صرف پراکسی تھے اور کسی اور کے احکامات پر کام کررہے تھے۔ لیاری پی پی پی کا سب سے مضبوط ترین سیاسی قلعہ تھا اس کو کیوں اور کس نے نشانہ بنایا خود پی پی پی کے بہت بڑ ے لیڈر اس کے ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے خود لیاری کی سیاست جرائم پیشہ افراد کے حوالے کیا اور ان کو یہ اختیار دیا کہ وہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے نمائندے نامزد کریں پارٹی اور دیرینہ کارکن نہ کریں۔ اگر پی پی پی کوکوئی شکایت ہے کہ اس کے کارکن زیادہ مارے گئے یا ان کے جلسوں اور جلوس میں حاضری کم کرنے کے لئے لیاری میں کرفیو کا ماحول بنایا گیا اور لوگوں کو بندوق کی نوک پر جلسے اور جلوس میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس طرح بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقوں میں جرائم پیشہ افراد کو بھی پشت پناہی حاصل رہی اس طرح وہ ہائی وے کے حکمران بن گئے ۔ بسوں، گاڑیوں کو لوٹا ، لوگوں کو اغواء کیا ۔لیکن سوائے طالبان کے کسی دوسرے گروہ کی نشاندہی نہیں کی گئی جو بڑے پیمانے پر اغواء برائے تاوان کے واقعات میں ملوث تھے بہت سے لوگوں نے تاوان ادا کیے، ریاست آج تک ناکام ہے کہ ان کا پتہ لگایا جائے اور عوام الناس کو واضح طورپر بتایا جائے کہ تاوان کن لوگوں نے وصول کیا وہ کون لوگ تھے یہ صرف دولت کمانے کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ پورے سماج کو خوفزدہ کرنے کا عمل تھا جو زیادہ قابل مذمت بات ہے ۔
آج کل تمام شہروں میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کسی کو بھی موقع ملتا ہے دوسرے کو لوٹنے کی کوشش کرتا ہے اس میں گھڑیاں ، لپیپ ٹاپ ، موبائل فون اور دیگر قیمتی اشیاء کے لوٹنے کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ تاثر مل رہا ہے کہ ملک انار کی کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے اور اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔ سب سے زیادہ ہولناک خبر یہ ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کو اغواء کر لیاگیا ہے شاید اس کا واحد مقصد تاوان وصول کرنا نہیں بلکہ اعلیٰ ترین عدلیہ کو یرغمال بنانا ہے۔ بہر حال جس بھی گروہ نے چیف جسٹس کے بیٹے کو اغواء کیا وہ اغواء برائے تاوان کا معاملہ نہیں لگتا یہ صرف اور صرف عدالت عالیہ سے زبردست ناراضگی بلکہ نفرت کا اظہار ہے۔ عوام الناس کو یہ تشویش ہے کہ نہ صرف ان کو فوری طورپر بازیاب کرایا جائے بلکہ انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ وہ کون لوگ ہیں انہوں نے کس کی ایماء پر ان کو اغواء کیا تھا۔ یہ نہ ہو کہ گولیاں مار کر ملزمان کو ہلاک کرکے ثبوت ہمیشہ کے لئے دفن کردیا جائے بلکہ ان کو عوام کے سامنے پیش کیاجائے تاکہ لوگوں کو تسلی ہو ۔