پشاور: اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے سربراہ فلیپو گرانڈی نے پاکستانیوں پر زور دیا ہے کہ وہ افغان مہاجرین پر، اپنے ملک میں دہشت گردی کا الزام نہ لگائیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے دوران دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے، جبکہ پاکستانی عوام میں افغان مہاجرین کو واپس ان کے ملک بھیجنے کے مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق پاکستان میں موجود تقریباً 25 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے فلیپو گرانڈی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان مہاجرین کی مدد کے لیے مزید فنڈز جاری کرے۔
پشاور کے باہر وطن واپسی کے منتظر افغانیوں کے مرکز کے دورے کے دوران فلیپو گرانڈی نے کہا کہ ’میری ناصرف پاکستانی انتظامیہ بلکہ عوام سے بھی اپیل ہے کہ وہ ان مہاجرین کو دہشت گرد نہ سمجھیں۔
افغانستان سے تعلقات میں کشیدگی کے بعد پاکستانی حکام نے اس جانب اشارہ دیا تھا کہ افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔
تعلقات میں اسی کشیدگی کے باعث افغان پناہ گزینوں کی، 30 جون کو ختم ہونے والی قانونی حیثیت کی تجدید کے حوالے سے بھی کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دو روزہ دورہ پاکستان کے دوران، حکام کو 30 جون کی ڈیڈ لائن آگے بڑھانے کے حوالے سے منانے کی بھی کوشش کریں گے۔
افغانستان میں ایک بار پھر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث، رضاکارانہ طور پر وطن واپس لوٹنے والے افغان مہاجرین کی تعداد میں بھی رواں سال بڑی حد تک کمی آئی ہے۔
یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے مطابق 2016 میں اب تک صرف 6 ہزار افغانی رضاکارانہ طور پر اپنے وطن واپس لوٹے ہیں، جس کے مقابلے میں گزشتہ سال 58 ہزار 211 افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر وطن واپس لوٹے تھے۔
پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان، گزشتہ دنوں طورخم سرحد پر کشیدہ صورتحال نے بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں دراڑ ڈالی تھی۔
پیر کے روز پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ افغان مہاجرین کے کیمپ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔
بدھ کے روز وفاقی وزیر عبد القادر بلوچ نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان، غیر معینہ مدت کے لیے افغان مہاجرین کی میزبانی کے لیے تیار نہیں ہے۔
پاکستان مہاجرین کو پناہ دینے کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، جہاں 15 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ اور تقریباً 10 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجودہ ہیں، جن میں سے بیشتر نے 1979 میں سوویت یونین کے حملے سے بچنے کے لیے پاکستان میں پناہ لی تھی۔