|

وقتِ اشاعت :   June 27 – 2016

وزیر داخلہ کچھ زیادہ ہی چالاک ثابت ہوئے بڑے سوچ بچار کے بعد انہوں نے غیر ملکی تارکین وطن کو تحفظ دینے کے لیے جعلی شناختی کارڈ کا ڈرامہ رچایا اور پورے ملک کو اس میں شامل کیا کہ ہر پاکستانی کے شناختی کارڈ کی تصدیق ہوگی ۔ پنجابی ‘ بلوچ‘ سرائیکی ‘ گلگتی ‘ بلتسانی ‘ سندھی اور پختون تو پاکستان کے شہری ہیں ۔ کسی ایک آدھ جرائم پیشہ فرد کے پاس کوئی جعلی شناختی کارڈ ہوگی پوری آبادی کو تحقیقات میں شامل کرنا بد نیتی کی نشانی ہے ۔آئے دن لوگ جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ رکھتے ہوئے گرفتار ہوتے ہیں، ان کے نام بھی اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں لہذا 18کروڑ عوام کے شناختی کارڈ کی تصدیق غیر ضروری اور اس کا مقصد عوام الناس کو ہراساں اور پریشان کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے لاکھوں بلکہ کروڑوں غیر ملکی غیر قانونی طورپر پاکستان کی سڑکوں پر چلتے پھرتے رہتے ہیں دور سے عام آدمی ان کو پہچان لیتا ہے کہ یہ پاکستانی نہیں ہے یہ افغانستان کا باشندہ ہے یا برمی اور بنگالی ہے یا تازہ تازہ بھارت سے یہاں آ کر وارد ہوا ہے ۔ ان چلتے پھرتے غیر ملکی تارکین وطن کو گرفتار کریں اور ان کو اپنے ملک روانہ کریں۔ جہاں تک ملا منصور کے جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی بات ہے ۔ عوام کو اس بات کا بالکل یقین ہے کہ بڑے اور طاقتور حکمرانوں کے احکامات پر ان قیمتی اثاثوں کو نہ صرف پاکستان میں پناہ دی گئی ہے بلکہ ان کو تمام سہولیات جن میں پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ شامل ہیں بنا کر دئیے گئے ہیں۔ ملا منصور ‘ اسامہ بن لادن اپنے بال بچوں کے ساتھ پاکستان میں پائے گئے یا مارے گئے جس سے پورے قوم کی سبکی ہوئی جہاں تک ملا اختر منصور کا تعلق ہے ان کو 1999ء میں قلعہ عبداللہ کے رہائشی ہونے کا لوکل سرٹیفکیٹ دیا گیا تھا جبکہ افغانستان میں ان کی اپنی حکومت تھی۔ قلعہ عبداللہ کے مقامی رہائشی یہ کہتے ہیں کہ صرف دس فیصد مقامی رہائشیوں کے لوکل سرٹیفکیٹ بنائے جاتے تھے اور باقی نوے فیصد افغان تھے جن کے لوکل سرٹیفکیٹ فوری طور پر بنتے تھے ۔ جب یہ انکشاف ہوا تو اہلکاروں نے پورا سرکاری ریکارڈ رات کے اندھیرے میں جلا دیا ۔اب وزیر داخلہ اپنی اور اپنی حکومت کی سبکی چھپانے کے لئے، ملا اختر منصور جن کے پاس سے اصلی پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نکلا، اس پر سے دھیان ہٹانے کے لئے انہوں نے پورے ملک میں دھول اڑا دی ہے۔ مقامی حکام کے مطابق ایک سرکاری اہلکار نے ملا اختر منصور کی لاش کو مکمل طورپر جلنے سے بچانے کیلئے ان کوجلتی ہوئی گاڑی سے گھسیٹا جس سے ان کی قمیض پھٹ گئی اور ان کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ دور جا کر گرے جو تفتیش کاروں کے ہاتھ میں آگئے۔ کسی نے ان کاپاسپورٹ باہر سے ان کے لاش کے قریب نہیں پھینکا تھا جس خدشے کا اظہار اپنی پریس کانفرنس میں چوہدری نثار نے کیا تھا ۔یہ کوئی بین الاقوامی سازش نہیں تھی یہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ملا منصور کی ملکیت تھے اور انہی کے جیب سے برآمد ہوئے لہذا شناختی کارڈ کی تصدیق چھوڑدیں تمام غیر ملکی تارکین وطن کو چلتے پھرتے گرفتار کریں اور ان کی جائیداد ضبط کرنے کے بعد ان کو اپنے وطن روانہ کریں ۔ یہ عمل بلا امتیاز ہونا چائیے ان میں سب سے پہلے افغانیوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے خاص طورپر ان لوگوں کے خلاف جن کے پاس سفری دستاویزات نہیں ہیں ۔