گزشتہ روز کوئٹہ اور اس کے گرد ونواح میں تیز بارش کی وجہ سے پوری شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی مقامی انتظامیہ خصوصاً میٹر وپولٹین کارپوریشن کی کارکردگی سوالیہ نشان بن گئی ۔ تمام گٹر سیلابی نالوں کی صورت ابل پڑے۔ بارش جو خدا کی رحمت ہے اس کوانتظامیہ کی نا اہلی نے لوگوں کے لئے باعث زحمت بنا دیا ۔ سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں ۔ گاڑیاں سڑکوں پر تیرتی نظر آئیں ۔ نئے سیلابی نالے بھی جواب دے گئے ان کے بڑ ے بڑے سیمنٹ کے سیلبوں کو پانی بہا کر لے گیا ۔ پہاڑی ریلے اور سیلاب نے زیادہ تباہی مچا دی ۔ غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے کئی علاقوں سے پانی گزرنے کا کوئی راستہ نہیں بنایا گیا اور علاقے جھیل بن گئے اور سڑک پر چلنے والی گاڑیاں تیرتی ہوئی نظر آئیں ۔ خدا کی طرف سے بارش کا مطلب پانی کی فراہمی کے علاوہ فضا کو آلودگی سے صاف کرنا بھی ہے مگر کوئٹہ کی فضا صرف کارپوریشن کی نا اہلی کی وجہ سے پورے شہر میں تعفن ‘ غلاظت اور بد بو پھیلاتی رہی۔ چونکہ کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہے اور نہ ہی گٹر اور نالے صاف رکھنے کا رحجان ہے ، نہ ہی مئیر اور ڈپٹی مئیر کی منصوبوں میں ان کو اہمیت حاصل ہے ۔ اس لئے گٹر اور نالوں کی پوری غلاظت سڑکوں پر نہ صرف امڈ آئی بلکہ صوبے کے سب سے بڑے اسپتال‘ سول ہسپتال میں داخل ہوگئی، وارڈز کے اندر سیلابی پانی کے ساتھ ساتھ گٹر کا پانی بھی اسپتال میں داخل ہوگیا اور مریضوں کو رہنے کے لئے کوئی جگہ نہ ملی ۔وجہ صرف یہ ہے کہ کوئٹہ شہر میں نکاسی آب کا کوئی قابل عمل منصوبہ نہیں بنایا گیا ۔ سریاب کا علاقہ جس کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ ہے سیوریج کے نظام سے محروم ہے ۔ ان علاقوں میں بارش کا پانی کھڑا ہے اور ہفتوں کھڑا رہے گا۔ کارپوریشن کے پاس اس کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں ہے اس لئے ان کم ترین مراعات یافتہ علاقوں کے لوگوں میں وبائی امراض پھیلنے کے خطرات لاحق رہیں گے اس لئے ان علاقوں کو بھی جدید دور کی سیوریج کا نظام دیا جائے اور ایم پی اے حضرات کے فنڈز سے کاٹ کر سریاب کے لوگوں کو بہتر سیوریج کا نظام دیاجائے ۔
اسی طرح کوئٹہ میں 23فیڈر ٹرپ کرگئے بجلی سارا دن آنکھ مچولی کھیلتی رہی ، لوگوں کے حساس ترین تنصیبات اور آلات کو نقصان پہنچاتی رہی، کیسکو ہے کہ اس کو کسی چیز کی پروا نہیں ۔ بجلی کے تار کئی علاقوں میں گر گئے ۔ بجلی کے نظام میں سارا دن خلل واقع رہا ۔ ادھر کارپویشن کی نا اہلی کی وجہ سے اشتہاری بورڈ یا بل بورڈ گر گئے ،کئی ایک راہ چلنے والے لوگوں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ مستقبل میں اس کا سدباب کرتے ہوئے سڑکوں اور فٹ پاتھ پر سے تمام اشتہاری بورڈز کو ہٹایا جائے اور دور ایسے جگہوں پر لگائے جائیں جہاں پر ان کے گرنے سے لوگوں کے جانوں کو کوئی خطرات لاحق نہ ہوں ۔ ہماری وزیراعلیٰ سے یہ توقع ہے کہ ان کی سربراہی میں مقامی انتظامیہ کو متحرک کیاجائے گا۔ سب سے پہلے سڑکوں سے غلاظت ‘ کوڑا کرکٹ ہٹایاجائے ۔ آبادی کے اندر کھڑے پانی کو فوری طورپر نکالا جائے تاکہ بارشوں کے بعد وبائی اور دیگر امراض پھیلنے کے خطرات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سیلابی نالوں کو انتہائی طورپر صاف کیا جائے اور ان پرقائم تمام تجاوزات کا خاتمہ کیاجائے تاکہ بارشوں میں انسانی جانوں اور املاک کا نقصان نہ ہو ۔ سیلابی پانی کے گزرنے کے لئے منصوبہ بندی کیجائے او رسیلابی نالوں کو صاف کیاجائے بلکہ جنگی بنیادی پر صاف کیاجائے ۔
بارش ‘ مقامی انتظامیہ کی ناکامی
وقتِ اشاعت : June 29 – 2016