تہرا ن : ایران میں ملک کے چار سرکاری بینکوں کے چیف ایگزیکٹیو کو ان کی تنخواہوں پر ہونے والی تنقید کے بعد عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر حسن روحانی کی ہدایت پر وزیر خزانہ نے مھر ایران، ملت، رفاہ اور صادرات بینک کے سربراہان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ایران میں تنخواہوں کا سکینڈل دو ماہ پہلے اس وقت سامنے آیا تھا سرکاری کمپنیوں کے اعلیٰ اہلکاروں کو دی جانے والے تنخواہوں کی رسیدیں انٹرنیٹ پر افشا ہوئی تھیں۔ان رسیدوں سے انکشاف ہوا کہ کئی اہلکار عام ایرانیوں کے مقابلے میں بیحد زیادہ تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ انھیں بہت بڑے بونس، بلاسود قرضے اور بعض معاملات میں ٹیکس میں چھوٹ بھی مل رہی ہے۔ایران پر جوہری پروگرام کی وجہ سے عائد پابندیوں کی وجہ سے معیشت کو بحران کا سامنا تھا اور اب عالمی طاقتوں سے معاہدے کے بعد پابندیاں ختم ہونے کے بعد بھی اس کے واضح فوائد سامنے نہیں آئے ہیں۔ملک میں غیر معمولی تنخواہوں پر پیدا ہونے والے تنازع کے بعد ملک کے رہبراعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے حکومت سے اس معاملے کو ’پرعزم طریقے‘ سے سنبھالنے کا مطالبہ کیا تھا اور اس پر صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ وہ زیادہ بونس حاصل کرنے والوں کے خلاف ’مناسب کارروائی‘ کریں گے۔آیت اللہ علی خامنہ ای نے گذشتہ ہفتے کابینہ سے کہا تھا کہ:’ آسمانوں سے باتیں کرتی تنخواہوں کا معاملہ ہماری قومی اقدار پر حملہ ہے۔ اس معاملے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور اس کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے لازمی طور پر اس کے نتائج سے آگاہ کرنا چاہیے۔‘گذشتہ ماہ سرکاری انشورنس کمپنی ’سی آئی سی‘ کے سربراہ نے تنخواہوں کی رسیدیں افشا ہونے پر استعفیٰ دے دیا تھا۔ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تنخواہوں کی رسیدیں کس نے افشا کی ہیں تاہم برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پہلی بار قدامت پسند اسٹبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے ذرائع ابلاغ نے انھیں جاری کیا تھا۔ایران میں تنخواہوں کی رسیدیں آن لائن لیک ہونے اور ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے کے بعد یہ سوال ایران میں آن لائن ٹرینڈ شروع ہو گیا تھا کہ ایرانی حکومت کے لیے کام کرتے ہوئے آپ کتنا کما سکتے ہیں؟۔