حکومت اور حکومتی وزراء ہمیشہ غیر قانونی تارکین وطن اور افغان مہاجرین کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے رہے ہیں اور عوام کے ذہن میں یہ تاثر پیدا کرتے رہے ہیں کہ دونوں مسئلے الگ الگ نہیں ہیں ۔ افغان مہاجرین بین الاقوامی برادری کے ایران اور پاکستان کے مہمان ہیں وہ ایک معاہدے کے تحت پاکستان میں موجود ہیں اور اب حکومت پاکستان نے ان کو مزید چھ ماہ ملک کے اندر قیام کرنے کی اجازت دی ہے یہ معیاد 31دسمبر2016ء کو ختم ہوجائے گی ۔ اس کے بعد ان کو واپس اپنے ملک جانا ہوگا ۔ اگر افغانستان معاشی طورپر اس قابل نہیں ہے کہ ان کو اپنے گھروں میں دوبارہ آباد کر سکے تو یہ بین الاقوامی برادری کا فرض بنتا ہے کہ ان کو افغان سرزمین پر کیمپوں میں رکھے اور اس وقت تک رکھے تاوقتیکہ وہ اپنی مرضی سے اپنے گھروں کو چلے نہ جائیں۔ 31دسمبر کے بعد ہر حال میں افغان مہاجرین کو پاکستان سے جانا ہوگا ان تمام باتوں کا اشارہ دو وفاقی وزراء جنرل قادر بلوچ اور چوہدری نثار کے بیانات سے ملتا ہے کہ پاکستان کسی بھی قیمت پر افغان مہاجرین کے قیام کی مدت میں توسیع نہیں کرے گا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ خود پاکستان تشریف لائے تھے اور ان کو کھل کر بتا دیا گیا تھا کہ 31دسمبر کے بعد افغان مہاجرین کے لئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہوگی ،یہ توہوئی قانونی بات ،اب یہاں سوال غیر قانونی تارکین وطن کا ہے جنہوں نے غیر قانونی طورپر بین الاقوامی سرحد پار کر لی اور غیر قانونی طورپر پاکستان میں داخل ہوئے اور یہاں کاروبار کررہے ہیں اس لئے ان کے خلاف بلا تاخیر کارروائی کی جائے اور ان کو پاکستان کی سرزمین سے فوری طورپر نکالا جائے کیونکہ ان میں اکثریت معاشی مہاجرین کی ہیں۔ یہاں یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے اندر بعض سیاسی عناصر افغانستان کے مفتوحہ علاقوں کو ابھی تک پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتے اور وہ کہتے ہیں کہ افغان اپنی سرزمین پر رہ رہے ہیں یعنی یہ سرزمین پاکستان کی نہیں ہے اس لئے افغان غیر قانونی تارکین وطن کو نہیں نکالا جا سکتا بلکہ یہاں تک کہ یہ سیاسی عناصر نادرا کے دفاتر کے باہر اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرتے رہے اور نادرا کے حکام پر دباؤ ڈالتے رہے کہ ان افغانیوں کو بھی پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کیے جائیں ۔ اس طرح سے وہ غیر قانونی تارکین وطن کو اپنی سیاسی قوت کا حصہ سمجھتے رہے ہیں اور ووٹر لسٹوں میں ان کااندراج بھی کرایا ہے بلکہ بڑی تعداد میں یہی لوگ ہیں جو ان کے سیاسی اجتماعات میں شرکت بھی کرتے ہیں ۔پہلے یہ ٹھیکہ ایک مذہبی جماعت نے لے رکھا تھا اور اب دوسرے سیاسی عناصر بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں ۔ایک بات واضح ہے کہ یہ خطہ آج کل پاکستان کا حصہ ہیں افغانستان کا نہیں ، یہاں افغان غیر قانونی طورپر نہیں رہ سکتے اور نہ ہی کاروبار کرسکتے ہیں اس لئے ان کو گرفتار کیاجائے ان کی جائیداد یں ضبط کی جائیں اور آ خر میں ان کو ملک بدر کردیا جائے، پاکستان کی سرزمین پر صرف پاکستان کے آئین اور قوانین کی عمل داری ہونی چائیے ۔تمام سیاسی عناصر اس بات کو تسلیم کریں ،نادرا دفاتر کے باہر مظاہرے بند کردیں اور سیکورٹی اہلکاروں سے تعاون کریں کہ وہ تمام غیر قانونی تارکین وطن خواہ وہ افغانستان سے ہوں، بھارت، برما یا بنگال سے ، ان سب کویہاں سے نکلنا چائیے ۔ یہ سندھ اور بلوچستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ غیر ملکیوں کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ آ کر ان کی سرزمین پر قبضہ کریں اور مقامی افراد پر حکمرانی کریں ،یہ عمل نا قابل قبول ہے ۔