|

وقتِ اشاعت :   July 4 – 2016

صوبہ بلوچستان سندھ کے دریائی یا نہری نظام کے آخری کونے پر واقع ہے تمام صوبے پہلے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد خیرات میں بلوچستان کی نہروں میں تھوڑا بہت پانی چھوڑ دیتے ہیں تاکہ زیادہ شور شرابہ نہ ہو پٹ فیڈر بلوچ عوام کو آباد کرنے کیلئے نہیں بنایا گیا تھا ایوب خان دور میں یہ منصوبہ بنایاگیا تھا کہ بلوچستان میں سابق فوجیوں کو بڑی بڑی زمین دی جائیں اور انکوکچھی کے میدانی علاقوں میں آباد کیاجائے جیسا کہ سندھ میں کیا گیا تھا۔ بلوچ عوام کی مزاحمت اور مداخلت سے یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور سابق فوجی یہاں آباد نہ ہو سکے اس جدوجہد کا سہرا نواب اکبر بگٹی کو جاتا ہے جس نے اس مزاحمتی تحریک کی رہنمائی کی اور اس الزام میں بھی گرفتا ر ہوئے اور جیل کاٹی ۔ چونکہ پنجاب کے اشرافیہ کی دلچسپی پٹ فیڈر میں کم ہوگئی تو پنجاب اور سندھ کو یہ کھلم کھلا اجازت دی گئی کہ وہ پٹ فیڈر‘ کھیر تر کینال ‘ اوچ کینال اور دیگر کینال میں کم سے کم پانی چھوڑدیں یا پہلے اپنی سندھ اور پنجاب کی ضروریات پوری کریں بعد میں کچھ نہری پانی بلوچستان کے نہری نظام کے لئے چھوڑ دیں۔ آئے دن بلوچستان میں یہ شور مچا رہتا ہے کہ بلوچستان کے نہروں کو ان کے حصے کا پانی جان بوجھ کر اور منصوبہ کے تحت نہیں دیا جارہا ہے اس لئے پٹ فیڈر ‘ کھیر تھر کینال اور اوچ کینال میں پانی کی قلت رہتی ہے ۔ وفاقی حکومت اس پر توجہ نہیں دیتی ، صوبائی حکومتوں کو ان معاملات میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی نہ ہی کبھی کسی وزیراعلیٰ نے سختی اور بہادری کے ساتھ یہ معاملہ وفاق یا صوبہ سندھ کے ساتھ اٹھایا یہی حال کچھی کینال کا بھی ہے ۔ چونکہ بنیادی مقصد بلوچستان کو ہر قیمت پر پسماندہ اور غریب تر رکھنا ہے اس لئے کچھی کینال گزشتہ اکیس سالوں سے تعمیر ہو کر نہیں رہا ۔ وجہ صرف یہ ہے کہ 1991ء کے دریائے سندھ کے پانی کے تقسیم کا معاہدہ صوبوں کے درمیان ہوا تھا اس لئے دس ہزار کیوسک پانی بلوچستان کواضافی طورپر دیا گیا تھا چونکہ بلوچستان میں نہری نظام موجود نہیں ہے اس لئے آج تک دریائے سندھ سے دس ہزار کیوسک پانی آج تک بلوچستان کو نہ مل سکا اور نہ آئندہ دس سالوں میں اس کے ملنے کی امید رکھنی چائیے ۔ اس وجہ سے اس کی تعمیر میں ضرورت سے زیادہ تاخیر جان بوجھ کر برتی جارہی ہے کہ بلوچستان کو اضافی پانی دستیاب نہ ہو ،نہر نہیں ہوگا‘ نہری پانی سندھ اور پنجاب استعمال کریں گے ۔ لہذا ان دونوں صوبوں کے مقاصد پورے ہورہے ہیں اور ان کو گزشتہ اکیس سالوں سے دس ہزار کیوسک اضافی پانی مل رہا ہے۔ پھر واپڈا تو کائنات کا کرپٹ ترین ادارہ ہے اس نے کچھی کینال کی لاگت میں ستر ارب روپے کا اضافہ کردیا پھر دوسری جانب غیر معیاری تعمیرات کی منظوری دی ہے یہ ممکن ہے کہ کچھی کینال کا نیا ڈھانچہ پہلے ہی سیلابی ریلے میں بحر بلوچ میں دفن ہوجائے اس لئے ان تمام سازشوں کا مقابلہ کرنا ضروری ہے ہم نے کبھی نہیں سنا کہ وفاقی پارلیمان میں بلوچ نمائندوں نے ان معاملات کو پارلیمان کے اندر اور باہر بھرپو رانداز میں اٹھایا ہو ۔ جہاں تک صوبائی حکومت کا تعلق ہے ان کی دلچسپی صرف امن عامہ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ معاشی ترقی کا معاملہ ایم پی اے اور ان کے فنڈز پر چھوڑدیا گیا ہے اگر یہی صورت حال رہی اور بلوچستان کو اس کے نہری پانی کا جائز حصہ نہیں دیا گیا تو بلوچستان ہمیشہ خوراک کی کمی کا شکار رہے گا اور سندھ اور پنجاب کا محتاج رہے گا کہ وہ اس کی آبادی کواناج فراہم کریں ۔