|

وقتِ اشاعت :   July 10 – 2016

جب لوگ مڑ کر یورو 2016 پر نظر دوڑائیں گے تو انھیں کئی کہانیاں یاد آئیں گی جو یا تو اس ٹورنامنٹ میں شروع ہوئی یا پھر انجام کو پہنچیں۔

ویلز اور آئس لینڈ جیسی ٹیموں کے لیے یہ ٹورنامنٹ یادگار رہے گا۔ نہ صرف خود انھیں بلکہ ان کی سرگرم ترین مداحوں کو بھی ان سے اس درجے کی کارکردگی کی توقع تھی، نہ ہی تجربہ۔ اس ٹورنامنٹ نے پہلے جرمنی اور پھر فرانس کے لیے ان کی ہارنے کے طویل سلسلوں کو ختم کر کے جیت کی راہوں پر گامزن کر دیا۔ اٹلی کی ٹیم ہمیشہ سے جرمنی کے لیے برا شگون رہی ہے۔ اس سے نمٹنے کے بعد کوچ یواخیم لو کی ٹیم کو ٹرافی بلند کرنا چاہیے تھی، خاص طور پر اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہ ان کا اگلا مقابلہ فرانس سے تھا اور فرانس گذشتہ نصف صدی میں کسی مسابقتی مقابلے میں جرمنی کو نہیں ہرا پایا۔ لو کے چھ مسلسل بار تک بڑے ٹورنامنٹوں کے سیمی فائنل یا اس سے آگے تک پہنچنے کے ریکارڈ کے باوجود یہ شک کیا جاتا رہا ہے کہ شاید وہ اپنی ٹیم کے مکمل امکانات کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔ فرانس کے خلاف مارسے میں یہ شک یقین میں بدل گیا اور اگرچہ ان کی ہر دلعزیز ٹیم نے بہت اچھا کھیل پیش کیا لیکن انھوں نے دو مہلک غلطیاں کیں جو انھیں لے ڈوبیں۔ فرانس کی ٹیم، جو اس ٹورنامنٹ میں کمزور ٹیموں کو بھی بمشکل تمام ہراتی رہی ہے، مارسے کے میدان میں اعتماد سے بھرپور تھی۔ وہ جانتے تھے کہ جرمن ٹیم گیند پر گرفت رکھے گی، اس لیے انھوں نے ان کے مڈ فیلڈ میں اور اس کے ارد گرد کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ کوچ دیدیے دیشاں کی ٹیم نے زیادہ زور دائیں حصے پر رکھا جہاں پال بوگبا اور دوسرے کھلاڑی جلدی سے گیند اپنے سٹار سٹرائیکر آنتواں گریزمان کے حوالے کر دیتے تھے، جنھوں نے دونوں گول سکور کیے۔ اس کے مقابلے پر جرمن مڈفیلڈروں نے بہت عمدہ کھیل پیش کیا اور ان کے کراس زبردست تھے، لیکن وہ انھیں گولوں میں ڈھالنے میں ناکام رہے۔ فرانس نے میچ کا زیادہ تر حصہ اپنے خول کے اندر رہ کر کھیلا، لیکن جب بھی اس خول سے نکلتے تھے، ان کا جوش و جذبہ دیدنی ہوتا تھا۔ میزبان فرانس کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ فائنل میں انھیں جس ٹیم کے مدِمقابل ہونا ہے وہ بھی ان کے خلاف کچھ ایسے ہی پتے کھیلے گی۔ بہت سے لوگوں کو گلہ ہے کہ پرتگال کو فائنل تک پہنچنے کے لیے ہموار راستہ ملا۔ لیکن یہ وہی ٹیم ہے جو پچھلے یورو کے سیمی فائنل تک بھی پہنچی تھی، اور اس کی قسمت اتنی اچھی نہیں ہے جتنا اکثر لوگ سمجھتے ہیں۔ ویلز کے خلاف سیمی فائنل میں انھوں دکھایا کہ اگرچہ زیادہ تر توجہ ان کے سٹار سٹرائیکرز پر مرکوز رہی، لیکن بحیثیتِ مجموعی وہ اپنے حریف کے مقابلے پر زیادہ متحد ٹیم کے طور پر کھیلے۔ ویلز نے ان کے گول پر بارہا حملے کیے لیکن پرتگال نے دفاع کو پھیلا کر ہر کوشش ناکام بنا دی۔
ویلز کو دو باتوں سے نقصان پہنچا۔ ایک تو ان کے دو کھلاڑی معطل کر دیے گئے، دوسرے یہ کہ ان کے دلوں میں شاید یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ وہ سیمی فائنل تک پہنچ کر پہلے ہی تمام توقعات پر پورا اتر چکے ہیں۔ وہ کوشش کے باوجود آگے اچھا کھیل نہیں پیش کر سکے اور پیچھے کی طرف پرتگال نے ان کی ایک نہیں چلنے دی۔ اس کے برعکس پرتگال نے ٹورنامنٹ کا آغاز مایوس کن طریقے سے کیا تھا، لیکن جب ضرورت پڑی تو انھوں نے بھی خوب کمر کس لی۔ جہاں تک پرتگال کے کپتان کرستیانو رونالڈو کی بات ہے، تو یہ ان کا دوسرا فائنل ہے۔ جب وہ نوعمر ہی تھے کہ فٹبال کی تاریخ کے ایک بڑے اپ سیٹ میں یونان سے ہار گئے تھے۔ اس وقت پرتگال میزبان تھا اور یونان وہ ٹیم تھی جو جانتی تھی کہ اپنا راستہ کیسے نکالا جاتا ہے۔ آج پرتگال کی ٹیم اسی انداز سے کھیل رہی ہے، جب کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ قسمت کی دیوی میزبان ٹیم پر مہربان ہے۔ اس سارے کھچڑی میں مزید چٹخارہ اس بات سے پڑ جاتا ہے کہ چند ہی ہفتے قبل رونالڈو کے دائمی حریف لیونل میسی نے ایک اور ٹورنامنٹ کا خاتمہ آنسوؤں اور آہوں سے کیا تھا۔ اب رونالڈو کے پاس موقع ہے کہ وہ ’عظیم ترین کون‘ کی بحث کا دھارا اپنے حق میں موڑ دیں۔