ناٹو ممالک کی سربراہی کانفرنس وارسا میں منعقد ہورہی ہے جس میں افغانستان مسئلے پر خصوصی توجہ ہوگی اور اس پر اہم فیصلوں کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ اس کانفرنس میں افغانستان کے صدر اشرف غنی بھی موجود ہوں گے ناٹو ممالک کی اس کانفرنس کو زبردست اہمیت دی جارہی ہے اور یہ کہا جارہاہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ناٹو ممالک کی یہ اہم ترین سربراہ کانفرنس ہے ۔ طالبان کے حالیہ حملوں کے بعد افغانستان کی سیکورٹی صورت حال میں زیادہ کمزوری نظر آرہی ہے ۔ اس کانفرنس سے قبل امریکا نے سینیٹر جان مکین کو ملکی صورت حال اور خصوصاً دفاعی صورت حال کا اندازہ لگانے کے لئے افغانستان بھیجا اور وہ اس دورے کے دوران پاکستان بھی آئے اورپاکستانی حکام سے ملاقاتیں کیں ان میں فوج کے سربراہ جنرل رحیل شریف بھی شامل تھے ۔ اس ملاقات کے بعد جنرل راحیل شریف نے وزیرستان کا خصوصی دورہ کیا اور اس موقع پر پاکستان کے واضح موقف کا دوبارہ اعادہ کیا کہ پاکستان کے افواج پاکستان کی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اس موقع پر انہوں نے ایسے عناصر کے خلاف بلا کسی امتیاز کے کاررائی کرنے کے احکامات جاری کیے۔ جبکہ امریکا اور افغانستان یہ الزامات لگاتے رہے ہیں کہ وزیرستان سے حقانی نیٹ ورک اور دیگر طالبان گروپ افغانستان پر حملے کرتے رہتے ہیں جنرل راحیل شریف کا یہ بیان ان الزامات کا جواب ہے کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں مداخلت کا نہ صرف مخالف ہے بلکہ دہشت گرد گروپوں کو پاکستان کی سرزمین کے استعمال کی اجازت بھی نہیں دیتا کہ وہ افغانستان پر حملے کریں یا پاکستان کے اندر دہشت گردی کے اڈے قائم کریں ۔ ضرب عضب کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ تھا اس میں تمام دہشت گرد تنظیموں اور گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی گئی اور ان سب گروپوں کو وزیرستان سے بے دخل کیا گیا بلکہ ان کے تمام اڈے تباہ بھی کردئیے گئے۔ اس بات کی تصدیق امریکی سینیٹر جان مکین اور اس کے وفد میں شامل اراکین نے بھی کی اور اتنی بڑی کامیابی پر انہوں نے خوشگوار حیرانگی کااظہار کیا کہ وزیرستان کو ایک محفوظ ترین علاقہ بنا دیا گیا ہے اور تمام دہشت گرد یہاں سے بے دخل کردئیے گئے ہیں جس کے لئے مسلح افواج نے بھی بڑی قربانیاں دی ہیں ۔ ان تمام کارروائیوں کے بعد حکومت پاکستان نے افغانستان اور اس کی حکومت کوبھی یہ یقین دہانی کرائی کہ افغانستان میں امن کے لئے پاکستان بھرپور کردار ادا کرنے کو تیار ہے اور وہ بین الاقوامی برادری سے مکمل تعاون کرتا رہے گا۔ پاکستان کی جانب سے ناٹو ممالک کے سربراہ کانفرنس کو یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان ہر طرح سے بین الاقوامی برادری سے تعاون کرنے کو تیار ہے تاکہ افغانستان میں دیر پا امن قائم رہے ۔ ناٹو ممالک شاید افغانستان کے دفاع کیلئے ایک طویل مدتی منصوبہ بنا رہے ہیں جس کے ذریعے افغانستان کو فوجی ساز وسامان دیا جائے گا جس کی مالیت کا اندازہ عام طورپر پچیس ارب ڈالر ہے ۔سب سے زیادہ امداد امریکا فراہم کرے گا اس سے قبل چین اور بھارت فوجی امداد روانہ کر چکے ہیں یہ تمام اقدامات صرف ایک بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری افغانستان کو ایک مضبوط ریاست کے طورپر دیکھنا چاہتی ہے اس کو کسی قسم کے اندرونی اوربیرونی خطرات لاحق نہ ہوں اب دیکھنا یہ ہے کہ ناٹو ممالک کے سربراہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعات اور مسائل میں کیا موقف اپناتے ہیں پاکستان نے اپنی طرف سے تعاون کی کشادہ دلی سے پیش کش کردی ہے ،اب ناٹو ممالک کے رد عمل کا انتظار ہے ۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات
وقتِ اشاعت : July 11 – 2016