کوئٹہ : بلوچستان عرصہ دراز سے سندھ کے ساتھ پانی کی تقسیم کے 1991کے معاہدہ کے تحت اپنے پانی کے مقررہ حصہ کو نظر انداز کئے جانے کی بناء پر مسائل سے دوچار ہے جس کی وجہ سے ہر سال صوبے کی ہزاروں ایکڑ پر مشتمل فصلیں تباہ ہورہی ہیں یہ بات صوبائی حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑ نے یہاں جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہی ہے انہوں نے کہا کہ پانی کی ضرورت سے کم دستیابی کی بناء پر جو فصلیں پیدا ہوتی ہیں اس سے علاقے کے لوگوں کو بمشکل ایک وقت کی خوراک میسر آتی ہے اور کم خوراکی کی وجہ سے شرح اموات میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ اوپری حصہ سندھ ایریگیشن سسٹم سے آنے والے پانی کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جس کا اپنے علاقہ میں متعلقہ کینال سسٹم پر کنٹرول ہے جس کی وجہ سے ڈسٹرکٹ جعفر آباد نصیر آباد اور جھل مگسی کے علاقے جن کا پانی کیلئے تمام تر انحصار انڈس سسٹم سے ملنے والے پانی پر ہے کے باشندوں کی زندگی کو گوناگوں مسائل سے دوچار ہے جس سے صوبے کی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے جو کہ اپنی خوراک کل ضرورت کا 50فیصد کینال ایریگیشن سسٹم سے حاصل کرتا ہے صوبائی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صوبائی حکومت اس حوالے سے کافی حساس ہے اور اس نے پانی کی فراہمی سے متعلق معاملات کو مختلف متعلقہ فورمز پر بھرپور انداز میں اٹھایا ہے خریف سیزن 2014تک سندھ ایریگیشن کے عملہ کے نامناسب رویہ کی وجہ سے کینال ایریگیشن سسٹم بلوچستان کو پانی کی 42فیصد کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے علاقے کی لاکھوں ایکڑ پر کاشت خریف کی فصلیں تباہی سے دوچار ہیں صوبہ سندھ اس وقت اپنے حصہ سے 50سے60کیوسک زائد پانی حاصل کررہا ہے اور کوٹری بیراج سے 30ہزار کیوسک سے زائد پانی سمندر کی جانب چھوڑا جارہا ہے پانی کی کمی کا یہ معاملہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے جس کی وجہ سے کینال ایریگیشن سسٹم بلوچستان کے کمانڈ ایریا میں ہزاروں ایکڑ پر کھڑی خریف کی فصلیں متاثر ہیں اس حوالے سے صوبائی محکمہ آبپاشی نے صوبہ سندھ کے محکمہ آپباشی کے ساتھ وزیراعلیٰ بلوچستان اور سپیکر اسمبلی کے وزیراعلیٰ سندھ کو لکھے گئے خطول کی روشنی میں معاملات کو اٹھایا ہے مگر ان کی جانب سے اس مسئلہ پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی ہے حکومت بلوچستان نے اس حوالے سے حکومت سندھ کے خلاف اپنا کیس مشترکہ مفادات کی کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں پانی کی کمی اور اس سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کی زرتلافی کے امور شامل ہیں اگرچہ محکمہ آبپاشی سندھ کو اس معاملہ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اس اپنے رویہ میں کسی حد تک تبدیلی دکھائی ہے لیکن اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے خریف2015کے دوران پانی کی کمی کا معاملہ جو کہ اب خریف سیزن 2016میں پریشان کن حد تک بڑھ چکا ہے سے پٹ فیڈر کینال، اوچ کینال اور مانجھوئی کینال میں پانی کی 25تا 35فیصد کمی جبکہ کھیرتر کینال میں جاری خریف سیزن میں 40تا45فیصد کمی پائی جارہی ہے جس کی وجہ کھیر تر کینال کے 5سو کیوسک پانی کا غیر قانونی طور پر وارا کینال سندھ کو منتقل کیا جانا ہے حالانکہ اس کا کمانڈ برائے خریف سیزن عرصہ دراز سے رائس کینال کو منتقل کیاگیا ہے اور صرف ربی سیزن کیلئے پانی کا کوٹہ مقرر کیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ کو جون اور جولائی میں اس کے حصہ سے 30سے50ہزار کیوسک زائدپانی فراہم کیاگیا جس میں 20تا30ہزار کیوسک پانی کوٹری بیراج سے سمندر کی جانب بہ کر ضائع ہوجاتا ہے جس میں بلوچستان کے حصہ کا 2تا ساڑھے تین ہزار کیوسک پانی بھی شامل ہے انہوں نے کہا کہ پانی کی کمی کے اس مسئلہ کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے جس کی وجہ سے ڈسٹرکٹ جعفر آباد، نصیر آباد اور جھل مگسی کی آبادی کو بھاری مالی نقصانات کا سامنا ہے جن کا کلی انحصار انڈس سسٹم سے آبپاشی پر ہے علاقے کے زمینداروں اس حوالے سے سخت احتجاج شروع کررکھا ہے جو کہ علاقے میں امن وامان کی صورتحال کو خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے اور اس پریشان کن صورتحال کے باعث بلوچستان میں زراعت کو بحران کا سامنا ہے انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے حکومت سندھ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ بلوچستان کے حصے کے پانی کی فراہمی کیلئے اس معاملے مین فوری قدم اٹھائے۔ اس سلسلے میں کوئی اور راستہ نہیں ہے ماسوائے اس کے کہ وفاقی حکومت پر زور ڈالا جائے کہ وہ معاملات کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے اس حوالے سے مشترکہ مفادت کی کونسل کا اجلاس طلب کرے۔