|

وقتِ اشاعت :   July 16 – 2016

ماڈل قندیل بلوچ کے قتل کا مقدمہ ملتان کے مظفر آباد تھانے میں درج کرلیا گیا، مقدمے میں مدعی قندیل بلوچ کے والد جبکہ ان ہی کے بیٹے ملزمان ہیں، اس لیے قانونی ماہرین نے کیس کمزور پڑجانے کا خدشہ ظاہر کیا۔ قتل کی ایف آئی آر کی کاپی کے مطابق قندیل بلوچ کے قتل کا مقدمہ ان کے والے محمد عظیم کی مدعیت میں مظفر آباد تھانے میں درج کیا گیا، جس میں ماڈل کے دو بھائیوں وسیم اور محمد اسلم کو ملزمان نامزد کیا گیا۔ واضح رہے کہ قندیل بلوچ کا اصل نام فوزیہ عظیم تھا تاہم مقدمے میں ان کی عرفیت استعمال کی گئی۔ قتل کے مقدمے کا اندراج پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302 اور 109 کے تحت کیا گیا۔
ایف آئی آر میں قندیل بلوچ نے والد محمد عظیم نے موقف اختیار کیا کہ محمد اسلم نے قندیل کے قتل کے لیے وسیم کو اکسایا، کیونکہ اس کے مطابق قندیل خاندان کی بدنامی کا باعث بن رہی تھی محمد عظیم نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ وسیم نے قندیل کو پیسوں کی خاطر قتل کیا۔ قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں ان کے اصل نام ’فوزیہ عظیم‘ کی جگہ عرفیت استعمال کیے جانے کے حوالے سے معروف وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اپنے اصل نام کی بجائے عرفیت سے مشہور ہو تو ایف آئی آر میں اصل نام کی جگہ اس کی عرفیت بھی استعمال کی جاسکتی ہے، جبکہ اس سے کیس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ قندیل کو ان کے ایک بھائی کے کہنے پر دوسرے کی جانب سے قتل کیے جانے پر اعتزاز احسن نے کہا کہ جس نے قتل کیا، اگر اس کی گرفتاری کے بعد یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اس نے کسی کی ایما پر قتل کیا تو اس تیسرے شخص پر بھی قتل کی دفعات ہی لگائی جائیں گی اور وہ بھی قتل کرنے والے جتنا ہی قصور وار تصور ہوگا۔ واضح رہے کہ قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں ماڈل کے والد نے اپنے جس دوسرے بیٹے محمد اسلم کا ذکر کیا ہے، وہ فوج میں جونیئر کمیشنڈ آفیسر ہے اور ایف آئی آر کے مطابق اس کا عہدہ نائب صوبیدار ہے۔ والد کی جانب سے مقدمے میں بیٹوں کو نامزد کیے جانے کے حوالے معروف وکیل کا کہنا تھا کہ قتل جو بھی کرے اس پر قتل کی دفعات لگائی جاتی ہیں، لیکن چونکہ قندیل کے والد ہی اس کے ولی بھی تھے اس لیے وہ چاہیں تو قاتلوں یعنی اپنے بیٹوں کو معاف بھی کرسکتے ہیں اور ایسی صورت میں کیس کمزور پڑجائے گا۔ خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں میڈیا میں قندیل بلوچ کے کی 2 شادیوں کا تذکرہ ہوتا رہا ہے جس کو ماڈل کی جانب سے تسلیم بھی کیا گیا، ان میں سے ایک شخص نے قندیل سے ایک بیٹا ہونے کا بھی دعویٰ کیا تھا، اس کے اس بیٹے کی عمر چونکہ 18 سال نہیں ہے اس لیے وہ قندیل کا ولی نہیں ہوسکتا۔ اعتزاز احسن نے قندیل بلوچ کے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ متنازع بھی تھیں تب بھی کسی کو یہ بلکل حق نہیں پہنچتا کہ وہ انہیں قتل کردیں۔ انہوں نے ملک میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ کا رجحان فروغ پانا انتہائی تشویشناک ہے اور قندیل بلوچ کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔