|

وقتِ اشاعت :   July 21 – 2016

کوئٹہ : وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت صوبے کے ماہی گیروں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنانا چاہتی ہے،انہوں نے وزیراعلیٰ کا منصب سنبھالتے ہی بلوچستان کی سمندری حدود میں وائر نیٹ کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی ماہی گیری کی سختی سے روک تھام کی ہدایت بھی کی تھی تاہم یہ امر باعث تشویش ہے کہ سندھ سے آنے والے بڑے ٹرالرز صوبے کی سمندری حدود میں وائر نیٹ کا استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی ماہی گیری کرتے ہیں جس سے سمندری حیات کو سنگین خطرات لاحق ہیں اور مقامی ماہی گیروں کا روزگار بھی متاثر ہو رہا ہے،ان خیالات کا اظہار انہوں نے گہرے سمندرمیں ماہی گیری (ڈیپ سی فشنگ) کی مجوزہ پالیسی کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ سردار سکندر حیات بوسن ، وزیر مملکت برائے پیٹرولیم جام کمال خان ، چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ، خزانہ، ماہی گیری، زراعت ، لائیو اسٹاک محکموں کے سیکریٹریوں اور لسبیلہ اور گوادر کے ڈپٹی کمشنروں نے اجلاس میں شرکت کی جبکہ ڈائریکٹر جنرل وزارت پورٹ اینڈ شپنگ اسد چانا نے اجلاس کو مجوزہ پالیسی کے خدو خال سے آگاہ کیا۔ واضح رہے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی ہدایت پر ماہی گیروں کے حقوق کے تحفظ اور پاکستان کی سمندری حدود میں غیر قانونی ماہی گیری کی روک تھا م کو یقینی بنانے کے لیے ایک جامع پالیسی وضع کی جا رہی ہے جس کی نگرانی کا ٹاسک وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کو دیا گیا ہے، جبکہ وزیراعظم نے انہیں پالیسی کی تیاری کے لیے سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں سے مشاورت کرنے کی ہدایت کی ہے، اس ضمن میں وزیراعلیٰ بلوچستان کی صدارت میں اجلاس کا انعقاد ہوا۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ پاکستان میں میرین فشریز کی ترقی کے ہدف کے حصول کے لیے وفاقی حکومت ایسی پالیسی تیار کرنا چاہتی ہے جس میں مقامی ماہی گیروں کے مفادات کا تحفظ بھی ہو اور غیر قانونی ماہی گیری کی روک تھام کر کے سمندری حیات کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جا سکے، اس ضمن میں انہوں نے حکومت سندھ سے مشاورت مکمل کر لی ہے اور حکومت بلوچستان کی مشاورت کے بعد پالیسی کو حتمی شکل دے کر اس کا نفاذ کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت صوبوں کو اپنی سمندری حدود کے بارہ ناٹیکل میل تک پالیسیوں کا نفاذ کا اختیار حاصل ہے تاہم وفاقی حکومت نے بلوچستان کو بیس ناٹیکل میل تک یہ اختیار دے دیا ہے جبکہ 20ناٹیکل میل سے 200ناٹیکل میل سمندری حدود وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جن کی نگرانی کی ذمہ داری میری ٹائم سیکورٹی فورس کی ہے، اس موقع پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ وفاق اور صوبوں میں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ ماہی گیری کی ایسی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے جس کا فائدہ بلوچستان کے غریب ماہی گیروں کو پہنچ سکے، ان کے مفادات کا تحفظ ہو اور انہیں اپنی سمندری حدود میں بلارکاوٹ ماہی گیری کا اختیار حاصل ہو۔ اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر مملکت جام کمال خان نے کہا کہ ڈیپ سی فشنگ پالیسی میں ماہی گیروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں جدید ٹیکنالوجی اور سہولتوں کی فراہمی کے علاوہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں واقع جیٹیوں میں کولڈ اسٹوریج سمیت دیگر سہولتوں کی دستیابی کو شامل کیا جانا چاہیے، ڈائریکٹر جنرل پورٹ اینڈ شپنگ نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ عالمی بنک نے پاکستان میں ماہی گیری کے شعبے کی ترقی کے لیے 5ارب روپے کی لاگت سے منصوبہ تیار کیا ہے، جس کے لیے عالمی بنک کی ٹیم جلد پاکستان آرہی ہے جو بلوچستان کے ساحلی علاقوں کا دورہ بھی کرے گی، اجلاس میں وزیرمملکت کی نشاندہی پر ضلع لسبیلہ میں پولٹری فیڈ تیار کرنے والی غیر قانونی طور پر قائم فیکٹریوں پر فوری طور پر پابندی عائد کرنا کا فیصلہ بھی کیا گیا جن کی وجہ سے سمندری حیات بالخصوص چھوٹی مچھلی کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں،اجلاس میں سیکریٹری محکمہ ماہی گیری کو پورٹ اینڈ شپنگ کے متعلقہ حکام کے ساتھ اجلاس منعقد کر کے مجوزہ پالیسی کے لیے حکومت بلوچستان کی جانب سے سفارشات تیار کرنے کی ہدایت کی گئی۔