|

وقتِ اشاعت :   July 22 – 2016

برلن: جرمنی کے شہر میونخ کے ایک شاپنگ سینٹر کے باہر مسلح شخص کی فائرنگ سے تین شخص ہلاک اور 10 افراد زخمی ہوگئے۔

‘ورلڈ وان الرٹ’ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر حملے کی ویڈیو میں ایک حملہ آور کو شہریوں پر فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

اسی ٹوئٹر اکاؤنٹ پر مزید ایک ویڈیو میں حملہ آور کو شاپنگ سینٹر کے باہر شہریوں پر فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس نے واقعے کے بعد جرمنی کے جنوبی شہر میں قائم اولمپک اسٹیڈیم کے قریب موجود شاپنگ سینٹر کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔

جرمن پولیس کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کی تعداد ایک سے زائد ہے اور انھوں نے مختلف مقامات پر فائرنگ کی ہے۔

میونخ پولیس نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ٹوئٹ کیا کہ ‘شاپنگ سینٹر میں پولیس کا آپریشن جاری ہے’۔

جرمن پولیس نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ ‘خبردار ۔۔۔۔۔۔او ای زیڈ کے اطراف میں آنے سے گریز کریں، اپنے گھروں میں رہیں’۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ‘صورت حال ابھی قابو میں نہیں ہے اس لیے جائے وقوعہ اور عوامی مقامات پر جانے سے گریز کیا جائے’۔

بِلڈ اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق حملہ آور فائرنگ کرنے کے بعد میٹرو اسٹیشن کی جانب فرار ہوا۔

دوسری جانب ڈی پی اے نیوز ایجنسی نے میونخ پولیس کی خاتون ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ واقعے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

واقعے کے بعد میونخ کی اہم شاہراہوں پر ٹریفک جام ہوگیا جبکہ ریسکیو، پولیس وینز اور ایمبولنس کو جائے وقوعہ کی جانب جاتے دیکھا گیا ہے۔

دوسری جانب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر موجود ایک اکاؤنٹ ‘ورلڈ وان الرٹ’ نے ٹوئٹ کیا ہے کہ جرمنی کے شاپنگ سینٹر میں ہونے والے حملے میں 15 افراد ہلاک ہوگئے ہیں تاہم پولیس نے ان ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کی ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز ایک نو عمر نے جرمنی کی مقامی ٹرین میں چاقو اور کلہاڑی کے وار سے 5 افراد کو زخمی کردیا تھا، مذکورہ حملہ آور کے حوالے سے دعویٰ کیا گی اہے کہ وہ ایک ‘نو عمر پناہ گزین’ تھا۔

واضح رہے کہ گذشتہ کچھ سالوں سے یورپ کے مختلف ممالک میں دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ ہو ہے، گذشتہ ہفتے فرانس کے شہر نائس میں ایک شخص نے عوام کو ٹرک سے کچل دیا تھا، اس حملے میں 84 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

نوٹ: یہ ابتدائی خبر ہے جس میں تفصیلات شامل کی جا رہی ہیں۔ بعض اوقات میڈیا کو ملنے والی ابتدائی معلومات درست نہیں ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہماری کوشش ہے کہ ہم متعلقہ اداروں، حکام اور اپنے رپورٹرز سے بات کرکے باوثوق معلومات آپ تک پہنچائیں۔