حکومت دو سال سے نیا مالیاتی کمیشن قائم نہ کر سکی حالانکہ ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ ان کی وفاقی کابینہ انتہائی تجربہ کار وزراء پر مشتمل ہے۔ لیکن پھر بھی معاشی اور مالیاتی معاملات جن کا تعلق وفاقی اکائیوں سے ہیں نظر انداز کیے گئے ہیں ۔ حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ وفاقی حکومت کی دلچسپی صرف اور صرف چند ایک ترقیاتی اسکیموں تک محدود ہے اور اس کی کچھ مخصوص وجوہات ہیں ۔ وفاقی اکائیوں خصوصاً کمزور اور چھوٹے صوبوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور ان کے دیرینہ مسائل کا کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہیں اس کی مثال واضح طورپر نئے مالیاتی کمیشن کی عدم تشکیل ہے ۔ پرانے کمیشن کی معیاد دو سال قبل ختم ہوچکی ہے نیا مالیاتی کمیشن دو سال قبل بن جانا چائیے تھا مگر صرف اور صرف سیاسی اور دیگر مفادات کی وجہ سے نہیں بنایا گیا حالانکہ اس پر پارلیمان میں زبردست احتجاج ہوا مگر حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ چھوٹے وفاقی اکائیوں خصوصاً سندھ اور بلوچستان کے خلاف بغض نمایاں نظر آرہا ہے ۔ 1990ء کی دہائی میں پہلی بار بلوچستان کو دس ارب روپے کی اضافی رقم گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں ملی تھی تو وزیراعظم نواز شریف سیخ پا ہوگئے تھے اور اس نے تادیبی کارروائی کے طورپر وفاقی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام سے بلوچستان کے لیے مختص رقم سے اتنی ہی رقم کاٹ لی ، صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ببانگ دہل یہ اعلان بھی کردیا کہ بلوچستان امیر صوبہ ہے اس کو اضافی رقم ملا ہے ۔ ساتھ ہی جب سندھک کا منصوبہ کامیابی کے مراحل سے گزر گیا اور اس کو باقاعدہ چلانے کے لئے فنڈ زکی ضرورت ہوئی تو انہوں نے وہ معمولی فنڈ دینے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ بنکوں کو بھی منع کردیا تھا کہ سندھک منصوبہ کو چلانے کے لئے وسائل فراہم نہ کریں چونکہ یہ وفاقی منصوبہ تھا ا سلئے بنکوں کو مالیاتی گارنٹی دینے سے انکار کیا تھا بلکہ اس وقت کے وزیر پٹرولیم اور قدرتی وسائل چوہدری نثار علی خان نے اس کی باقاعدہ بندش کا سرکاری اعلان بھی کردیا ۔ چینی کمپنی کو حکم دیا کہ وہ اربوں روپے کی مالیت کا سامان سندھک سے نکال لے اور چینی فوری طورپر ملک چھوڑ دیں۔ یہ سب باتیں اخبارات میں چھپ گئیں تھیں آج اسی ٹیم سے بلوچستان کیا توقعات رکھ سکتی ہے بلوچستان کے عوام نے ان تمام واقعات کے باوجوودرگزر سے کام لیا اور یہ توقعات جاری رکھیں کہ حکومتیں یا ریاستی پالیسی میں بنیادی تبدیلی جلد آئے گی۔ اس سے پہلے کوئی نیا سیاسی یا آئینی بحران کھڑا نہ ہو وفاق پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ چھوٹے اکائیوں خصوصاً سندھ اور بلوچستان کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے اور پرانے رویوں میں تبدیلی لائی جائے۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ نئے مالیاتی کمیشن اعلان جلد سے جلد کیا جائے جس میں وسائل کی تقسیم برابری کی بنیاد پر اور مساوی ہو ، برابری کی یہ بنیادیں صرف وسائل کی تقسیم پر موقوف نہ ہوں بلکہ اس کا اطلاق قومی اسمبلی کی نشستوں پر بھی کیاجائے ۔ نازک ملکی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آبادی کو اہمیت نہ دی جائے بلکہ وسائل کی مساوی تقسیم کا اس بار فیصلہ کیاجائے کیونکہ بلوچستان کو 67سالوں میں زبردست طریقے سے نظر انداز کیا گیا ہے، ریاستی رویے میں تبدیلی لانی ضروری ہے تاکہ بلوچستان ترقی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے، یہ نہیں ہوسکتا کہ ملک کا بڑا حصہ پسماندہ ہو اور ایک چھوٹا حصہ ترقی کرے، ترقیاتی کا معیار آسمان سے باتیں کرنے لگے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ وسائل کی مساوی تقسیم ہو ا س سے قبل صوبائی خودمختاری کا مسئلہ بھی حل کیاجائے ، وفاق کے پاس کم سے کم اختیارات ہوں بلکہ صرف دفاع اور خارجی معاملات اور باقی تمام اختیارات وفاقی اکائیوں کو منتقل کیے جائیں جو وفاقیت اورپاکستانیت کی اصل روح ہے پاکستان کے بانیوں نے اس بات کا وعدہ کیا تھا ۔ افسر شاہی نے اقتدار پر 1951میں قبضہ کرنے کے بعد وفاق کو وحدانی طرز حکومت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے آج وفاق زیادہ طاقتور اور وفاقی اکائیاں انتہائی کمزور اور نا توان ہیں ۔
برابری کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم
وقتِ اشاعت : July 23 – 2016