|

وقتِ اشاعت :   July 25 – 2016

واشنگٹن: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں سیاسی کارکنوں کے خلاف مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کے لیے رواں برس اکتوبر میں امریکا کا دورہ کریں گے۔

امریکا میں ایم کیو ایم کے 20 ویں سالانہ کنونشن کے موقع پر وائٹ ہاؤس کے باہر احتجاجی مظاہرے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے امریکی انتطامیہ سے پاکستان میں سیاسی کارکنوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرنے کے لیے تجزیہ نگاروں کو بھیجنے کا بھی مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا نہ صرف اپنے تجزیہ نگاروں بلکہ فوج کو بھی دیگر جگہوں پر بھیجتا ہے، امریکا کو چاہیئے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی مانیٹرنگ کے لیے اپنے تجزیہ نگاروں کو ضرور پاکستان بھیجے۔

ایم کیو ایم کے 20ویں سالانہ کنونشن میں پارٹی کے اہم رہنماؤں فاروق ستار، بابر غوری اور زرین مجید سمیت پورے امریکا سے کئی ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ڈپٹی کنوینر اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار نے 10 دن واشنگٹن میں گزارے اور کئی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔

فاروق ستار نے بتایا کہ انہوں نے جن شخصیات سے ملاقات کی، ان میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور وائٹ ہاؤس کے حکام شامل نہیں ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرے کو مکمل طور پر ایم کیو ایم کا ہی ‘سیاسی شو’ ہونا تھا، لیکن اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے کارکنوں کی موجودگی سے وہاں نعروں کی جنگ شروع ہوگئی، جو ایم کیو ایم کے وائٹ ہاؤس کے باہر احتجاج مظاہرے سے ناخوش تھے۔

مخالف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں سے ایک کارکن خالد تنویر کا کہنا تھا کہ ‘ہم ان کو اس حساس مقام پر پاکستان کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، ہم سیاسی احتجاجی مظاہرے کے خلاف نہیں لیکن یہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے، اس مسئلے کے خلاف وائٹ ہاؤس کے باہر کے بجائے پاکستان میں ہی احتجاج ہونا چاہیے’۔

دوسری جانب ایم کیو ایم اور ان کے اہم رہنما مخالف سیاسی جماعتوں کی تجویز سے اتفاق نہیں کرتے، اس حوالے سے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ملک میں ان مسائل کو حل کرنے لیے تمام ممکنہ کوشش کی جاچکی ہیں لیکن حکومت کی عدم دلچپسی کے باعث ہمیں بیرون ملک احتجاج کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔

سابق وفاقی وزیر بابر غوری کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم واشنگٹن میں ’پاکستان کو بدنام یا حکومت کے خلاف کوئی سازش تیار‘ کرنے نہیں آئی اور نہ ہی ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم موجودہ حکومت کو گرانے کے لیے کسی غیر آئینی اقدام کی حمایت کریں گے، ہم چاہتے ہیں کہ موجود حکومت اپنی مدت پوری کرے۔

اس موقع پر ایم کیو ایم رہنما زرین مجید نے کہا کہ ماروائے عدالت قتل، کارکنان کی گمشدگی اور ان پر تشدد کے واقعات عالمی اصول و قوانین کی خلاف ورزی ہے، عالمی برداری ان قوانین کی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

ایم کیو ایم نے کنونشن کے اختتام پر کئی قراردادوں کو منظور کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکومت ملک کو 20 چھوٹے صوبوں میں تقسیم کرنے پر غور کرے، ملک میں فوری طور پر مردم شماری کروائی جائے، کارکنان کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

پارٹی قائد الطاف حسین نے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ایم کیو ایم دنیا کی عظیم جمہوریت کی علامت والے مقام کے باہر اپنے کارکنان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف احتجاج کررہی ہے’۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ‘کراچی میں 2013 سے غیر اعلانیہ طور پر مارشل نافذ ہے اور دہشت گردوں کے خاتمے کے نام پر صرف ایک خاص جماعت کے خلاف متعصبانہ آپریشن کیے جارہے ہیں اور ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے’۔