آئے دن نصیر آباد ڈویژن کے شہروں میں احتجاج اور مظاہرے ہورہے ہیں اور لوگ نہری پانی کی قلت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں نہری پانی کی قلت کے دو بڑے وجوہات ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ بلوچستان کو اس کے حصے کا پانی نہیں مل رہا ہے ۔ سندھ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بلوچستان کے نہروں کو پانی فراہم کرتا ہے ۔ بلوچستان کو اس کے حصے سے کم پانی مل رہا ہے کیرتھر کینال کے لئے مختص پانی کا کوٹہ 1400کیوسک ہے ۔ اس کو 600کیوسک پانی دیا جارہا ہے ۔ اسی طرح پٹ فیڈر کا کوٹہ 600کیوسک پانی ہے ۔ مشکل سے 2000کیوسک پانی پٹ فیڈ ر کمانڈ ایریا کو دیا جارہا ہے ۔ بلوچستان چونکہ دریائے سندھ کے نہری نظام کے آخری سرے پر ہے ا سلئے سب سے زیادہ نقصان بلوچستان کو ہورہا ہے ۔ سندھ اور پنجاب اپنے حصے کا پانی حاصل کر لیتے ہیں اور پانی کی کمی کا بلوچستان کوسامنا کرنا پڑتا ہے ۔ افسوس کی بات ہے صوبے کے حکمرانوں کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے متعلقہ حکام بشمول وزیر برائے آبپاشی نے کبھی نہری علاقوں کا دورہ نہیں کیا اکثر وہ کوئٹہ ‘ اسلام آباد اور ملک سے باہر ہرتے ہیں ان کو مسئلے کی سنگینی کا علم ہی نہیں ہے سرکاری ملازمین ‘ سیکرٹری اور چیف انجینئر کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جاتی ۔ ان کی کوئی بات سندھ ‘ پنجاب اور وفاقی حکومتیں نہیں سنتیں۔ اس لئے وزیراعلیٰ کو ذاتی دل چسپی لینی چائیے اور سندھ اور وفاقی حکومتوں سے بات کرنی چائیے کہ بلوچستان کو اس کے حصے کا پانی ضرور ملنا چائیے ۔ اگر نہری نظام میں پانی کی کمی بیشی ہے اس کو تمام صوبے برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے پر تقسیم کریں اور صرف بلوچستان کو نشانہ نہ بنائیں۔ دوسری بڑی وجہ محکمہ آبپاشی میں وسیع پیمانے پر کرپشن ہے انجینئر اور افسران رشوت لے کر پانی کی چوری کی اجازت دیتے ہیں چیف سیکرٹری کے حکم پر صرف ایک دن کیلئے 40کے قریب داٹر پمپ ہٹا دئیے گئے اور پانی کی چوری صرف ایک دن کیلئے بند رہی ۔ مگر 24گھنٹے بعد د گنے بھتے کی ادائیگی پر پانی چوری دوبارہ شروع ہوئی اور نہروں کے آخری سرے کے کاشت کار دوبارہ احتجاج کرنے لگے ۔ غضب خدا کا سرکاری سرپرستی میں پانی چوری کی جارہی ہے اچھی حکمرانی صرف انصاف سے قائم ہو سکتی ہے چوری سے نہیں ، حکومت نہری پانی کی چوری کے خلاف سخت ترین اقدامات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی طاقتور شخص زبردستی یا دولت کے زور پر اضافی پانی استعمال نہیں کر سکے ، ان کو غریب کاشتکاروں کے حقوق غضب کرنے کی اجازت نہیں ہونی چائیے حکومت ہر قیمت پر نہری پانی کی چوری روکے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام واٹر پمپ اور غیر قانونی وائر کورس بند کردئیے جائیں۔ پانی چوروں کو گرفتار کیا جائے اور ان کو قوانین کے مطابق سزا دی جائے ۔ پہلے تو ان افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے کم سے کم ان کو ان کے عہدوں سے فوری طورپر ہٹا یا جائے تاکہ پانی کی چوری فوری طورپر بند ہوسکے ۔ شکایت درج کی جائے کہ سندھ نہری پانی کے معاملے میں بلوچستان سے زیادتی کررہا ہے اور بلوچستان کے حصے کا پانی روک رہا ہے اور نہری نظام میں ساری کمی کو بلوچستان کے حصے میں ڈال رہا ہے جو بلوچستان کی حق تلفی کے برابر ہے بلکہ وزیر اعلیٰ خودسندھ اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم سے ملاقات کریں اور نہری پانی کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل کریں ۔کم سے کم نہری علاقوں میں لوگوں کے لئے پینے کا پانی تودستیاب ہوسکے ۔
بلوچستان میں نہری پانی کا بحران
وقتِ اشاعت : July 26 – 2016