واشنگٹن: امریکی سینیٹ کمیٹی برائے آرمڈ سروسز کے چیئرمین جون میک کین نے زور دیا ہے کہ امریکا، پاکستان اور افغانستان اپنے اختلافات پر قابو پائیں اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مل کر حصہ لیں۔
فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک مضمون میں سینیٹر میک کین نے اس بات پر زور دیا کہ ‘پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں امریکی مشن بہت مشکل ہوجائے گا’۔
انھوں نے لکھا، ‘جتنا جلد پاکستان، امریکا اور افغانستان اپنے مشترکہ دہشت گرد دشمنوں کے خلاف مل کر کام کریں گے، قومیں، یہ خطہ اور دنیا بہتر ہوجائے گی’۔
یاد رہے کہ سینیٹر میک کین نے رواں ماہ کے آغاز میں پاک-افغان خطے کا دورہ کیا تھا، جہاں پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقات میں انھوں نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے حوالے سے بات کی، انھوں نے شمالی وزیرستان کو بھی دورہ کیا تھا۔
اس حوالے سے اپنے مضمون میں سینیٹر میک کین نے لکھا کہ اس دورے کے دوران انھیں معلوم ہوا کہ افغانستان میں امریکی مشن اب بھی ویسا ہی ہے، جیسا کہ یہ 2001 میں تھا، جس کا مقصد دہشت گرد نیٹ ورکس کو تباہ اور انھیں شکست دینا تھا۔ انھیں اس بات کا بھی احساس ہوا کہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مزید تعاون ضروری ہے۔
انھوں نے لکھا، اس دورے کے دوران وہ اس بات پر قائل ہوئے کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے حوالے سے حکمت عملیاں واضح تھیں، یعنی امریکی فوجیوں کی سیفٹی اور افغانستان میں ان کے مشن کی کامیابی، جبکہ یہ پاکستان اور امریکا کی قومی سلامتی کے ساتھ ساتھ خطے کے استحکام کے لیے بھی ضروری تھا۔
سینیٹر نے مزید لکھا کہ پاکستان کو امریکی امداد میں کمی اور کانگریس کی جانب سے دفاعی ہتھیاروں کی فروخت میں سبسڈی سے انکار کے باعث دونوں حکومتوں کے درمیان تناؤ پیدا ہوچکا ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان سب کے باوجود بھی انسداد دہشت گردی، جوہری سیکیورٹی اورعلاقائی سلامتی جیسے مشترکہ مفادات فوری اور بہت ضروری ہیں۔
سینیٹر میک کین نے اس بات کو تسلیم کیا کہ امریکا نے دو طرفہ تعلقات کو ہمیشہ افغانستان کے نقطہ نظر سے دیکھا ہے، ان کا کہنا تھا، ‘حقیقی ترقی حاصل کرنے کے لیے امریکا کو پاکستان کے استحکام اور معاشی ترقی کے حوالے سے عزم کو بھی واضح کرنا چاہیے’۔
انھوں نے پاکستان پر بھی زور دیا کہ وہ ‘افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرے جو اس کی حدود میں آپریٹ کرتے ہیں، پڑوسیوں پر حملہ کرتے ہیں اور امریکی فورسز کو ہلاک کرتے ہیں’۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا، ‘یہ پاکستان کے لیے مشکل ہوگا، اس میں سیاسی عزم اور جانی و مالی قربانی کی ضرورت ہوگی، یہی وجہ ہے کہ انتہا پسندی کو شکست دینے کے فیصلے کی مخالفت کے حوالے سے بھی شکوک پیدا ہوجائیں گے’۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان کی تحصیل میران شاہ کے دورے کے دوران انھوں نے شہر کا بازار دیکھا، جہاں کبھی بم بنانے والی فیکٹریاں اور اسلحہ ڈیلرز اور دہشت گرد گروپوں کے دفاتر ہوا کرتے تھے، انھوں نے لکھا، ‘پاکستانی سپاہیوں کے اقدامات کا شکریہ، جن کی وجہ سے اب یہ موت کا بازار مزید باقی نہیں رہا’۔
میک کین نے اپنے مضمون کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا کہ ‘اپنی سرزمین پر تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے سے پاکستان کو اندازہ ہوگا کہ امریکا اس جنگ میں اس کی مدد کرنے اور اسٹریٹیجک شراکت داری کو مضبوط بنانے کی خواہش رکھتا ہے’۔