|

وقتِ اشاعت :   July 30 – 2016

پیرس: فرانس کے حکام نے گذشتہ برس نومبر میں دارالحکومت پیرس میں ہونے والے حملوں میں ملوث شدت پسند تنظیم داعش کے 2 مشتبہ ارکان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کردیئے، جن میں مبینہ طور پر ایک پاکستانی بھی شامل ہے۔

یاد رہے کہ نومبر 2015 میں پیرس میں دہشت گردوں نے 6 مقامات پر حملے کیے تھے، دھماکوں اور فائرنگ کے یکے بعد دیگرے واقعات میں 130 ہلاکتیں ہوئی تھیں، جبکہ حملوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عدالتی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ 29 سالہ الجیرین عدیل حدیدی اور 35 سالہ پاکستانی محمد عثمان پر ‘دہشت گردوں کے ساتھ مل کر مجرمانہ سازش’ کے الزامات عائد کیے گئے۔

تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ مذکورہ ملزمان نے 3 اکتوبر کو یونانی جزیرے لیروس سے پناہ گزینوں سے بھری اُسی کشتی میں سفر کیا،جس میں 13 نومبر کے حملہ آور بھی سوار تھے۔

عراقی تصور کیے جانے والے مذکورہ حملہ آوروں نے خود کو فرانس کے اسٹیڈیم کے باہر دھماکے سے اڑایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق حدیدی اور عثمان کو سب سے پہلے شام کا جعلی شناختی کارڈ رکھنے کے جرم میں یونانی حکام نے گرفتار کیا تھا، جنھیں 25 روز حراست میں رکھنے کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔

بعدازاں یہ دونوں پیرس حملوں کے بعد گذشتہ برس نومبر کے آخر میں مغربی آسٹریا کے شہر سالزبرگ چلے گئے۔

آسٹریا پولیس کے کمانڈوز نے انھیں دسمبر 2015 میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ سے گرفتار کیا، جس کی اطلاع فرانسیسی حکام کی جانب سے دی گئی تھی کہ یہ دونوں ملزمان آسٹریا میں موجود ہوسکتے ہیں۔

آسٹرین پولیس کے مطابق ‘اپنی گرفتاری تک یہ دونوں داعش سے مسلسل رابطے میں تھے’۔

اے ایف پی کے مطابق گرفتاری کے بعد حدیدی نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ‘وہ فرانس جانا چاہتا تھا،تاکہ اپنا مشن مکمل کرسکے’۔

تفتیش سے آگاہ ایک قریبی ذرائع نے بتایا کہ حدیدی کا کہنا تھا کہ ‘اسے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پیرس حملوں میں حصہ لینا تھا’۔

تاہم فرانس کی جانب سے یورپین وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد آسٹریا میں سالزبرگ کی ایک عدالت نے اسے قبول کرتے ہوئے مذکورہ افراد کو جولائی کے آغاز میں فرانس کے حوالے کردیا۔

رپورٹ کے مطابق عثمان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا تعلق کالعدم تنظیم لشکر طیبہ سے ہے، جو بم بنانے کا ماہر ہے۔

دوسری جانب عثمان نے خود کو آسٹریا سے فرانس منتقل کیے جانے کے حوالے سے ایک اپیل بھی دائر کی جس میں کہا گیا کہ فرانس میں اس کا شفاف ٹرائل نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ اسے اپنی جان کی حفاظت کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں، تاہم اس اپیل کومسترد کردیا گیا۔