|

وقتِ اشاعت :   July 30 – 2016

ریاستوں اور سرحدی علاقوں کے امور کے وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ افغانوں کی وطن واپسی پر سہہ فریقی معاہدہ ہوگیا ہے ۔ یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے ادارے، افغانستان اورپاکستان حکومتوں کے درمیان ہوچکا ہے کہ تمام افغان 31دسمبر2016ء تک اپنے ملک رضا کارانہ طورپر چلے جائیں گے ورنہ 31دسمبر کے بعد ان تمام افغانوں کی موجودگی کو غیر قانونی تصور کیاجائے گا اور ان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد پندرہ لاکھ ہے اور یہ پاکستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں مقیم ہیں ۔ ان میں کوئٹہ ‘ پشاور ‘ کراچی ‘ لاہور اور اسلام آباد شامل ہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حکومت کو یہ معلوم ہے کہ افغان کہاں کہاں رہتے ہیں ۔ البتہ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی طور پر صرف دس لاکھ افغان موجود ہیں جو غیر قانونی طورپر سرحد پار کرکے پاکستان مختلف وجوہات کی بناء پر آئے ہیں ان میں اکثریت کا تعلق معاشی وجوہات کی بناء پر ہجرت ہے اوروہ بہتر زندگی گزارنے پاکستان آئے ہیں ۔ گوکہ وزیر موصوف نے یہ کہا کہ افغان مہاجرین دہشت گردی میں ملوث نہیں اور ابھی تک اس کے ثبوت حکومت کو نہیں ملے ہیں البتہ چھوٹے موٹے اسٹریٹ کرائم میں یہ ملوث پائے گئے ہیں جبکہ اس کے برعکس سیکورٹی ادارے اور فوج کے ترجمان ایک سے زائد بار یہ اعلانیہ کہہ چکے ہیں کہ افغان پاکستان کی سیکورٹی کے لئے خطرہ ہیں لہذا ان کو جلد سے جلد وطن واپس بھیجا جائے ۔دوسری طرف کے پی کے کی حکومت نے انتہائی سخت موقف اپنایا ہے اس کی وجہ افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کا جرائم اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونا ہے کیونکہ افغان پشاور میں بھتہ وصول کرتے ہوئے پائے گئے ۔ کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں اسٹریٹ کرائم کے علاوہ وہ اغواء برائے تاوان ‘ رہزنی کی وارداتوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ کے پی کے کی حکومت نے انتہائی سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے اور غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کیا جارہا ہے ۔ وہ افغان مہاجرین جو جرائم میں ملوث ہیں ان کو بھی گرفتار کیا جارہا ہے ۔ ان کے پاس سے اسلحہ اور منشیات بر آمد ہوئے ہیں ۔ یہ تمام خبریں اخبارات کی زینت بن چکی ہیں البتہ بلوچستان میں صرف اور صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر کسی بھی افغان کے خلاف خواہ وہ غیر قانونی طورپر پاکستان کی سرزمین پر موجود ہو، کارروائی نہیں ہورہی ہے ۔ ریاستی اداروں کو چائیے کہ وہ یہ سیاسی وجوہات ختم کردیں اور کم سے کم غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی بلا امتیاز شروع کردیں تاکہ اکتیس دسمبر 2016ء کے بعد کوئی افغانی غیر قانونی طورپر پاکستان میں مقیم نہ رہے۔ ہمارا یہ مشورہ ہے کہ ایسے تمام افغانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا جائے اور جیلوں سے براہ راست ان کو ملک بدر کیاجائے اگر یہ سلسلہ آج سے شروع ہوجائے تو اکتیس دسمبر 2016ء تک کوئی افغان غیر قانونی طورپر نہیں رہ سکے گا۔ البتہ ان تمام افغانوں کے خلاف بعد میں کارروائی کی جائے جنہوں نے جعلی شناختی کارڈ بنائے ‘ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر پاکستانی پاسپورٹ یا دوسرے پاکستانی دستاویزات رشوت دے کر یا اثر ورسوخ اور نادرا کے افسروں کو دباؤ میں لا کر غیر قانونی طورپر حاصل کیں۔ ان پاکستانیوں کے خلاف بھی زبردست کارروائی کی جائے اور ان کو عبرتناک سزائیں دی جائیں جنہوں نے افغان مہاجرین کو پاکستان کے اندر سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے میں مدد کی یا یہ جانتے ہوئے کہ وہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حقدار نہیں ہیں پھر بھی ان کی دستاویزات کی تصدیق کی اور اس طرح سے جعل سازی کے مرتکب ہوئے ۔جب افغانوں کے خلاف کارروائی مکمل ہوجائے اس کے بعد ملک کے معتبرین اور سیاسی رہنماؤں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے افغانیوں کو پاکستانی شہری بنانے میں جعل سازی کی ہے اور اپنے ہی ملک کے ساکھ کو نقصان پہنچایا ۔