|

وقتِ اشاعت :   August 1 – 2016

بعض سیاستدان صرف اور صرف نعرہ بازی کی سیاست کررہے ہیں اور اکثر مخالفین پر الزامات لگاتے رہتے ہیں کہ وہ بلوچستان کی ترقی کے خلاف ہیں۔ بلوچستان کا کوئی شخص یہ نہیں چاہتا کہ اس کو بنیادی سہولیات سڑک ‘ بجلی ‘ گیس ‘ اسکول ‘ ہسپتال دیگر تعلیمی اور نجی ادارے اور روزگار کے مواقع حاصل نہ ہوں۔ سی پیک اگر کسی حد تک چند ایک ضرورتیں بھی مہیا کرتا ہے تو ہر ذی شعور اس کی حمایت ہی کرے گا، کوئی اس کا مخالف نہیں ہے سرکاری اہلکار کار اور وزراء صاحبان جو اسلام آباد میں بیٹھے ہیں یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ بلوچستان کا ہر شخص، ہر رہنما اور خصوصاً حقیقی قوم پرست بلوچستان کی ترقی کے خلاف ہیں وہ اس بات کا پروپیگنڈا بڑے زور و شور سے کرتے ہیں اور اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے اور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپوزیشن کو ٹھکانے لگا رہے ہیں۔ بنیادی مسئلہ بلوچستان کی ترقی کا ہے ۔ اس کے لئے سینکڑوں ارب روپے کی سالانہ ضرورت ہے بلوچستان کے ستر ارب کے مالک صرف اور صرف ایم پی اے حضرات ہیں ۔ بلوچستان کو ترقی دینے میں وفاق کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ اکیس سالوں سے کچھی کینال تعمیر ہونے کا نام نہیں لیتا آر سی ڈی ہائی وے جو بلوچستان کی معاشی شہ رگ کہلاتی ہے گزشتہ 55سالوں میں بھی مکمل نہ ہو سکا ۔ ابھی بھی نوشکی سے لے کر تفتان تک شاہراہ انتہائی خستہ حالت میں ہے ۔ اس کے برعکس لاہور ‘ پنڈی موٹر وے صرف آٹھ ماہ میں تعمیر ہوا بلکہ تمام سہولیات کے ساتھ مکمل ہوگیا ۔ جتنی بھی شاہراہیں بلوچستان میں زیر تعمیر ہیں ان کو دہائیاں گزر گئیں لیکن وہ اب بھی مکمل ہونے کا نام نہیں لیتیں ۔ اسی طرح 2002ء میں گوادر پورٹ کی موجودہ حد تک کی تعمیر 2006ء میں مکمل ہوگئی اس کے بعد آج تک اس کو پانی ‘ بجلی ‘ گیس اور دوسری سہولیات مہیا نہیں کی گئیں بلکہ دوسرے مرحلے کی تعمیرات پر غور تک نہیں کیا گیا۔ مجموعی طورپر یہ دیکھا گیا ہے کہ بلوچستان سے متعلق ہر ایک اسکیم دہائیوں پر محیط رہتا ہے۔ تجربہ یہی ہے کہ اب تک کم سے کم ہر ایک اسکیم تیس ‘ تیس سالوں میں مکمل ہوا ۔ ترقی کا دارو مدار بہترین بنیادی ڈھانچہ میں مضمر ہے ابھی تک بلوچستان کو بنیادی ڈھانچہ ہی فراہم نہیں کیا گیا تو ترقی کہاں سے ہوگی ۔بجلی کا عالم یہ ہے کہ بلوچستان 2400میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے بلوچستان کو 1600میگا واٹ کی آج کل ضرورت ہے وہ بھی صنعت کے نہ ہونے کے باوجود مگر ٹرانسمیشن لائن صرف 600میگا واٹ کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے ۔ تین چوتھائی بلوچستان میں پاور ٹرانسمیشن لائن کا وجود ہی نہیں ہے لیکن اس کے باوجوداب بلوچستان میں مزید بجلی گھر اس لئے بنائے جارہے ہیں کہ سندھ اور پنجاب کی ضرورتوں کو پورا کیاجائے ۔ ہونا تو یہ چائیے کہ ان تمام بجلی گھروں کی تعمیر سے پہلے بلوچستان میں پاور ٹرانسمیشن لائن کے استعداد کار کو بڑھایا جائے جو بلوچستان کے مستقبل کی ضروریات کو پورا کرسکے ۔ پاور ٹرانمسمیشن لائن نہ بچانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے لئے ایران سے آدھی قیمت پر بجلی نہ خریدی جائے ،پاور ٹرانسمیشن لائن نہیں ہوگی ایران سے کبھی بھی سستی بجلی نہیں خریدی جا سکے گی۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومت کا فیصلہ ہے کہ ایران سے بجلی بڑے پیمانے پر نہیں خریدی جائے گی اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے قازقستان اور تاجکستان سے بجلی خریدینے کی باتیں کی جارہی ہیں دوسرے الفاظ میں عالم بالا سے بجلی لائی جائے گی مگر بلوچستان کے سرحد پر اضافی بجلی اور سستی بجلی موجو دہے وہ نہیں خریدی جائے گی کیونکہ حتی الوسع بلوچستان کو پسماندہ ہی رکھنا ہے، سرکاری سیاستدانوں کے لئے جواز پیدا کرنا ہے کہ وہ مخالفین کے خلاف تقاریر کریں، جلسہ عام کریں اور آقاؤں کو خوش رکھیں ۔