کوئٹہ : وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے کہا ہے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فورسز کے اہلکاروں کو شہید کرکے یا عام شہریوں کو مار کر وہ سی پیک کو روک لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے سی پیک بنے گا اور ہم اسے ہر حال میں بنائیں گے ،یہ ملک اور صوبے کی خوشحالی کا پیغام ہے اور ہم اس کو ہرحال میں مکمل کرکے رہیں گے ، موجودہ حکومت کی کوششوں سے اب یہاں کوئی لشکر نہیں اور نہ ہی حکومت کسی کو لشکر بنانے کی اجازت دے گی ، سابقہ دور حکومت کے مقابلے میں اب حالات بہت بہتر ہوچکے ہیں ، شاہراہوں محفوظ بنائی جاچکی ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے جمعیت کے ضلعی رہنماء اور ان کے بیٹے کی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے تحریک التواء کو سمیٹے ہوئے کیا ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا تھا کہ صوبے میں امن وامان کے حوالے سے ہم ان کیمرہ بریفنگ دیں گے مگر آج صوبے کے جو حالات ہیں وہ گزرے5سالوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں ہم نے حالات پر کافی حد تک قابو پالیا ہے پچھلی حکومت میں ایک ایک دھماکے میں سو سے زائد افراد شہید ہوتے تھے آج اللہ کے فضل سے حالات اس طرح نہیں انہوں نے کہا کہ ہم یہاں جس زون میں رہ رہے ہیں وہ کنفلیکٹ زون ہے ، سی پیک آرہا ہے اور دوسرے معاملات بھی ہیں جن کا ہم سامنا کررہے ہیں ۔اگرچہ حکومت اور اداروں پر دباؤ بھی ہے مگر ہم صورتحال کو دیکھ رہے ہیں اور اب تک حالات کو ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر بنادیا گیا ہے انہوں نے کہا دس سالوں تک یہاں دہشت گرد ندناتے پھررہے تھے قتل کرنے والا قتل کرتا رہا دہشت گردی کرنے والا دہشت گردی کرتا رہا انہیں حکومت کے ہونے کا بھی احساس نہیں تھا انہیں کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی آج ان سے پوچھنے والا تو ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے 95فیصد حالات درست کردیئے ہیں اگرچہ کنفلیکٹ زون ہے اور اکا دکا واقعات ہوتے ہیں مگر آج اس ایوان میں واضح کردوں کہ آج یہاں کوئی لشکر نہیں ہے میری حکومت کسی کو لشکر بنانے کی اجازت نہیں دے گی ہم مقابلہ کررہے ہیں جبکہ ماضی میں یہاں لوگوں نے سینکڑوں افراد بھرتی کرکے لشکر بنا لئے تھے مگر ہم کسی کو اب ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے میری حکومت پیچھے نہیں ہٹے گی ۔سابق دور میں لوگ شام 5بجے دکانیں بند کردیتے تھے رات کو شاہراہوں پو سفر نہیں ہوسکتا تھا مگر آج امن وامان ہے شاہراہیں محفوظ ہوچکی ہیں انہوں نے خضدار اور قلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں لشکر تھے جو لوگوں کو اغواء کرکے ان سے کروڑوں روپے طلب کرتے ہم نے ان چیزوں کا خاتمہ کردیا ہے ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کیں یہ جنگ جو دہشت گردوں نے شروع کی ہے اسے اب اس کے منطقی انجام تک ہم پہنچائیں گے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فورسز کے اہلکاروں کو شہید کرکے یا عام شہریوں کو مار کر وہ سی پیک کو روک لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے سی پیک بنے گا اور ہم اسے ہر حال میں بنائیں گے ۔یہ ملک اور صوبے کی خوشحالی کا پیغام ہے اور ہم اس کو ہرحال میں مکمل کرکے رہیں گے۔ہم امن کے لئے کتنے سنجیدہ ہیں یہ ہم نے اپنے عمل اور اقدامات سے ثابت کرکے دکھایا ہے ہم نے بیورو کریسی کو اختیارات دیئے اس سے پہلے اضلاع میں کمشنرز اور ڈپٹی کمشنر کے پاس اختیارات نہیں ہوتے تھے ہم نے انہیں مکمل اختیار دیا اور میں انہیں خود امن وامان کے حوالے سے اقدامات کی ہدایت کرتا ہوں ہم نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے جبکہ ماضی میں حکومتوں کی جانب سے انتظامیہ کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کی وجہ سے انہوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ آج بھی میں اسمبلی کے اجلاس میں تاخیر سے پہنچاہوں کیونکہ میری آئی جی کے ساتھ امن وامان کے حوالے سے میٹنگ تھی جب یہاں پر حکومت بن رہی تھی تو ہم نے امن وامان کو اولین ترجیح قرار دیا تھا اور آج بھی امن وامان کا قیام میری اولین ترجیح ہے جوا من وامان کو ہاتھ میں لے گا اس سے ہم آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے چاہے وہ کتنا ہی طاقتور ہی کیوں نہ ہو۔ بلوچستان ہم سب کا ہے اور اس کا امن بھی ہم سب کا ہے ہمارا وژن اور ہماری کوشش یہ ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو پرامن اور پڑھا لکھا بلوچستان دیں حکومت کی ترجیح امن وامان ہے جو اس کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا ہم اس کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے انہوں نے کہا کہ اگر میرا اپنا سگا بھائی بھی امن وامان میں مداخلت کرے گا تو میں اسے معاف نہیں کروں گا میں عزت کے ساتھ آیا ہوں اور عزت کے ساتھ واپس جاؤں گا انہوں نے کہا کہ ہماری فورسز نے ہوشاب میں ڈاکٹر اللہ نذر کے بعد بی ایل ایف کے بڑے کمانڈر اخترندیم کا پیچھا کیا وہ دہشت گرد تھا اور سینکڑوں لوگوں کے قتل میں ملوث اوربے شمار بم دھماکے کئے تھے ہم امن وامان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ہم نے دہشت گردوں کے عزائم خاک میں ملائیں گے ان کی کمر توڑ دی ہے کوئٹہ سمیت بلوچستان میں اکا دکا واقعات ہورہے ہیں جبکہ اس سے پہلے بے گناہ لوگوں کو ٹارگٹ کیا جاتا تھا ایک واقعے میں سو سو بے گناہ انسانوں کی جانوں سے کھیلا جاتا تھا ہم نے تہیہ کررکھا ہے کہ سو فیصد امن قائم کریں گے اور اس کوشش میں ہم اب تک خضدار ، سوئی ، ڈیرہ بگٹی اور کوہلو میں سو فیصد امن قائم کرچکے ہیں ، پنجگور پہلے سے بہت بہتر ہوچکا ہے تربت میں کچھ مسائل ہیں چھ ماہ کے اندر وہاں بھی مکمل امن قائم کردیں گے کوئٹہ ایک بڑا شہر ہے اور دنیا کے تمام بڑے شہروں میں امن وامان کے واقعات ہوتے رہتے ہیں مگر ہم اس پر بھی خاموش نہیں ہیں چاہے کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو کسی کو امن وامان اپنے ہاتھوں میں لینے نہیں دیں گے انہوں نے کہا کہ ہماری وہ شاہراہیں جن پر لوگ دن میں سفرکرنے سے گبھراتے تھے آج وہاں راتوں کو بھی لوگ پرامن طریقے سے سفر کررہے ہیں ہم نے امن وامان برقرار رکھنے کاتہیہ کررکھا ہے انہوں نے انجینئر زمرک خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں قبائلی طو رپر جرگوں کا سلسلہ تو جاری ہے تاہم ہم دیکھیں گے کہ اس سلسلے میں حکومتی سطح پر کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں ۔وزیراعلیٰ کے اظہار خیال کے بعد سپیکر نے تحریک التواء نمٹادی ۔دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ حکومت کے تمام وسائل عوام کی امانت ہیں لہذا انہیں عوام ہی کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے لیے بروئے کار لایا جائیگا اور ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر کی صورت میں فنڈز کے ضیاع کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائیگا۔ کیسکو حکومت بلوچستان کی جانب سے فراہم کئے گئے فنڈز کے ذریعے عوام کو بجلی کی فراہمی کے منصوبوں کی بروقت تکمیل کو ہر صورت یقینی بنائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کیسکو سے متعلق اراکین اسمبلی کی شکایات کے ازالے کے حوالے سے منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صوبائی وزراء ، نواب ایاز خان جوگیزئی، سردار مصطفی خان ترین، رحمت صالح بلوچ، صوبائی مشیران سردار رضا محمد بڑیچ، عبیداللہ بابت، میر محمد خان لہڑی، اراکین صوبائی اسمبلی طاہر محمود خان، میر اکبر آسکانی ، منظور احمد کاکڑ، نصراللہ زیرے، حاجی اسلام بلوچ اور سید لیاقت آغا ، صوبائی سیکریٹری توانائی، صوبائی سیکریٹری زراعت اور چیف ایگزیکٹو آفیسر کیسکو بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کیسکو سے متعلق عوامی نمائندوں کی شکایات جو کہ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر کے حوالے سے ہیں کا ہر صورت ازالہ ہونا چاہیے کیونکہ عوامی نمائندے اپنے اپنے علاقوں کے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں، انہوں نے کہا کہ وفاقی ادارے بھی ہمارے اپنے ہیں لیکن جب ان سے متعلق شکایات پیدا ہوتی ہیں تو پھر میڈیا کی زینت بھی بنتی ہیں، جو فیڈریشن کے لیے بدنامی کا باعث ہے، لہذا ایسی صورتحال پیدا ہی نہ ہونے دی جائے جو سب کے لیے شرمندگی کا باعث ہو۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے مذکورہ شکایات کا جائزہ لینے کے لیے صوبائی وزراء سردار مصطفی ترین، رحمت صالح بلوچ اور رکن صوبائی اسمبلی طاہر محمود خان پر مشتمل ایک بااختیار کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا جس میں سیکریٹری توانائی، سیکریٹری زراعت اور کیسکو حکام بھی شامل ہونگے، کمیٹی کیسکو کے تعطل کے شکار منصوبوں ، لوڈ شیڈنگ ، زمینداروں کو بجلی کی فراہمی اور وولٹیج کی کمی بیشی جیسے مسائل کا جائزہ لے کر ان کے حل کے لیے سفارشات مرتب کرے گی۔ اس موقع پر چیف ایگزیکٹو آفیسر کیسکو نے اجلاس کو بتایا کہ آئندہ ماہ کی پندرہ تاریخ تک تمام نئی واٹر سپلائی اسکیموں کو بجلی فراہم کر دی جائے گی، انہوں نے یقین دلایا کہ کیسکو کے تعطل کے شکار منصوبوں کو جلد ازجلد مکمل کیا جائے گا اور ہر پندرہ دن بعد وزیراعلیٰ کو پراگریس رپورٹ پیش کی جائے گی،وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ حکومت بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی طور پر بااختیار بنانے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے ، نچلی سطح پر عوامی مسائل کے حل کے لیے بلدیاتی ادارے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں، حکومت اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے ذریعے عوامی مسائل کے حل پر یقین رکھتی ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈسٹرکٹ اور میونسپل کارپوریشنوں کے چیئرمینوں کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ جس نے میئر کوئٹہ ڈاکٹر کلیم اللہ کی قیادت میں ان سے ملاقات کی۔ صوبائی وزراء سردار مصطفی خان ترین، ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، صوبائی مشیر سردار رضا محمد بڑیچ، اراکین صوبائی اسمبلی زمرک خان اچکزئی اور میر عاصم کرد گیلو بھی اس موقع پر موجود تھے، وفد نے وزیر اعلیٰ کو بلدیاتی اداروں کو اختیارات کے حوالے سے درپیش مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے حل کی درخواست کی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم کے ذریعے بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے میں سنجیدہ ہے جبکہ ترقیاتی عمل میں بھی بلدیاتی اداروں کو شراکت دار بنانے کے لیے رواں مالی سال کے بجٹ میں 6ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ملاقات کے دوران وزیراعلیٰ نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم کے حوالے سے سفارشات مرتب کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا جس میں بلدیات ، منصوبہ بندی اور قانون کے محکموں کے وزراء ،ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات ، سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری لوکل گورنمنٹ، سیکریٹری بلدیات ، سیکریٹری قانون اور بلدیاتی اداروں کے نمائندے شامل ہونگے، کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں مجوزہ ترامیم کی کابینہ سے منظوری لیکر حتمی منظوری کے لیے انہیں صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائیگا۔