|

وقتِ اشاعت :   August 5 – 2016

اخبارات خصوصاً آزاد اور مقامی اخبارات میں آئے دن خبریں چھپتی رہیں کہ کوئٹہ میں روزانہ درجنوں گاڑیاں افغانستان کے راستے کوئٹہ اور اس کے گردونواح میں داخل ہورہی ہیں ایک اندازے کے مطابق ایسی گاڑیوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے جن کی کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس ادا نہیں کیے گئے ہیں ۔ لیکن جب کسٹم حکام نے کوئٹہ کی سڑکوں، فٹ پاتھ اور شورومز پر چھاپہ مارا تو ہزاروں گاڑیوں میں سے صرف پندر گاڑیاں قبضے میں لے لیں۔ وجہ یہ تھی کہ چھاپہ سے زیادہ انہیں اپنی شہرت اور پبلسٹی کا خیال تھا ۔ گھنٹوں پہلے اخبارات اور ٹی وی چینل کے دفاتر فون کرکے ان کو صاف اور واضح طورپر بتایا گیاکہ کسٹم کے حکام شو رومز پر چھاپہ مارنے والے ہیں لہذا ٹی وی کی تشہیر کا انتظام کریں ۔ جب چھاپہ مارا گیا ظاہر ہے کہ شو رومز کے مالکان کو پہلے سے اطلاعات تھیں کہ چھاپہ پڑنے والا ہے اس لئے وہ تمام گاڑیاں سین آناً فاناً غائب ہوگئیں جن کی کسٹم ڈیوٹی اور دوسرے ٹیکس ادا نہیں کیے گئے تھے ۔شو رومز مالکان اور کسٹم حکام کا چولی دامن کا ساتھ ہے ان کے تعلقات انتہائی گہرے ہیں اور اتنے گہرے ہیں کہ کسٹم حکام نے شو رومز مالکان کے لئے خصوصاً ایمنسٹی اسکیم شروع کرائی تھی جس کی وجہ سے پچاس ہزار سے زائد اسمگل شدہ گاڑیوں کو قانونی تحفظ دیا گیا اور ان سے ٹوکن ٹیکس وصول کرکے سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا ۔ اب کی بار اس سے کہیں زیادہ گاڑیاں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ گاڑیاں سرکاری سرپرستی اور شراکت داری سے اسمگل ہو کر کوئٹہ اور اس کے گردونواح لائی گئیں اور فروخت کے لئے پیش کی گئی ہیں ۔ اب کی بار شاید ایک اور ایمنسٹی اسکیم شروع کی جائے گی تاکہ ایک لاکھ سے زائد اسمگل شدہ گاڑیوں کو قانونی شکل دی جائے شاید حکو متی اراکین جو ان کے حقیقی معاون بھی ہیں وہ بھی اس بات پر زور دیں گے کہ اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں کو ضبط کرنا نا ممکن ہے ۔ اس لئے بہتر یہ ہے ان تمام اسمگل شدہ گاڑیوں کو ایک بار پھر قانونی شکل دی جائے تاکہ اسمگلرز حضرات اور شو رومز کے مالکان اربوں روپے کمائیں اور سرکاری خزانے کو ایک بار پھر اربوں کا نقصان پہنچائیں ۔ اگر کسٹم حکام پہلے چھاپہ مارتے اور بعد میں پریس کو بلاتے تو ان کے ہاتھ گاڑیاں آتیں بہر حال اسمگلرز ‘ شو رومز کے مالکان اورکسٹم حکام کا ایک دوسرے سے گہرے مراسم ہیں تب بھی یہ چھاپہ کامیاب نہیں ہوتا ۔ اس معاشی بیماری کا کوئی علاج نظر نہیں آتا بلوچستان کو سرکاری طورپر اسمگلنگ کا زون بنادیا گیا ہے یہاں پر معمول کی معیشت کا کوئی گزر بسر نہیں ہے ہر شے اسمگل شدہ ہے یہاں تک کہ پاکستان کی بنی مصنوعات فروخت نہیں ہونی دی جاتیں، اس کے مقابلے میں زیادہ سستی اشیاء اورسمگل شدہ اور بہتر کوالٹی کے ساتھ موجود ہیں اور خریدار مجبور ہے کہ زیادہ سستی اور اچھی کوالٹی کی اشیاء خریدے یہ صرف اور صرف سرحدوں پر سختی نہ ہونے کی وجہ اور سرکاری طورپر اسمگلنگ کی سرپرستی ‘ خصوصاً افغان ٹرانزٹ تجارت کی وجہ سے بلوچستان کی معیشت کی بنیاد مضبوط نہیں ہوگی نہ یہاں پر ٹیکس لگائے جائیں گے نہ بلوچستان کے پاس وسائل ہوں گے جو معاشی ترقی کی رفتار کو تیز تر کر دے۔ بلوچستان حقیقی معنوں میں اسمگلروں کی جنت ہے اور اس تجارت میں سرکاری اہلکاروں کی شراکت داری بھی شامل ہے اس لئے ایف سی کے ایک سابق افسر کے گھر سے تیرہ ارب روپے بر آمد ہوئے اور اس کو فوج سے بر طرف کردیا گیا ۔