کوئٹہ شہر کو ایک بار پھر خون سے نہلا دیا گیا ،معروف قانون داں بلال انور کاسی پرگھات لگا کر حملہ کیا گیا جس میں وہ جان بحق ہوگئے ۔ وکلاء اور دوسرے افراد نے ان کی لاش کو سول اسپتال کوئٹہ پہنچایا تاکہ لاش کی پوسٹ مارٹم کی جائے مگر سول اسپتال کے شعبہ حادثات کے دروازے پر ہی بہت زبردست دھماکہ ہوا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ خودکش حملہ تھا اس میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق 70افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور تقریباً سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں ۔ بعض زخمیوں کی حالت زیادہ خراب اور سنگین بتائی جارہی ہے اور خیال ہے کہ ہلاک شدگان کی تعداد میں مزید اضافے کا امکان ہے ۔ بلال انور کاسی کی شہادت کے بعد معروف وکیل اور بلوچستان ہائی کورٹ سابق صدر باز محمد خان کاکڑ کو بھی شدید زخمی حالت میں اسپتال میں داخل کیا گیا تھا اور وہ بھی زخموں کی تاب نہ لا کر ہلاک ہوگئے ۔ مرنے والوں میں وکلاء کی تعداد زیادہ ہے آج ٹی وی کے کیمرہ مین بھی اس حملے میں ہلاک ہوگئے سول ہسپتال میں اس قسم کے دہشت گرد حملے کا یہ دوسرا واقعہ ہے اس سے قبل ہزارہ قبیلے پر حملے کے بعد جب لاشیں سول ہسپتال لائی گئیں تھیں تووہاں بھی اس قسم کاحملہ ہوا تھا۔ اس طرح بولان میڈیکل کالج میں طالبات کے بس پر حملے کے بعد اسپتال پر بھی حملہ کیا گیا جس میں کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر شہید ہوئے، اسی طرح ایک اور واقعہ پولیس لائن میں پیش آیا ، ایک پولیس افسر کو گھات لگا کر شہید کیا گیا بعد میں بڑی تعداد میں لوگ پولیس لائن میں جمع ہوئے تووہاں پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں اعلیٰ پولیس افسران اور دوسرے لوگ شہید ہوئے۔ اس طرح کے واقعات کی ذمہ داری پہلے دہشت گرد تنظیمیں لیتی رہی ہیں ان میں لشکر جھنگوی شامل ہے ۔ اس بار وکلاء برادری کو نشانہ بنایا گیا اس سے قبل دہشت گردوں نے کوئٹہ کے سیشن عدالت میں دھماکہ کیا تھا اور اس میں جج سمیت کئی لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ سیکورٹی اداروں کی کوتاہی ہے کہ دہشت گرد عوامی اجتماعات پر آسانی سے پہنچ جاتے ہیں اور معصوم عوام کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں ۔ سیکورٹی اداروں کا بنیادی کام دہشت گردوں کا کھوج لگانا ہے حکومت کے مخالفین کا نہیں اس لئے سیکورٹی ادارے اور خصوصاً مقامی پولیس تمام عوامی اجتماعات پر سیکورٹی کے انتظامات کو زیادہ بہتر بنائیں۔ سیکورٹی کا ماحول اس سے بہتر نہیں ہوگا کہ سڑکوں اور راہ چلتے لوگوں کو ہراساں کیاجائے اور لوگوں کی بے عزتی کی جائے اور اس میں خواتین ‘ بچوں اوربزرگ شہریوں کا بھی کوئی لحاظ نہ کریں ۔ہمارا یہ مشورہ ہے کہ سیکورٹی ادارے حقیقتاً دہشت گردوں کا پتہ لگائیں جو خودکش حملوں میں ملوث ہیں ابھی تک بلوچ کالعدم تنظیمیں خودکش حملوں میں ملوث نظر نہیں آئے یہ کام مذہبی جنونی اور طالبان سے تعلق رکھنے والوں نے کیے ۔ انہوں نے ہزارہ برادری کے ہزاروں افراد کو دہشت گرد حملوں میں ہلاک کیا، وجہ صرف یہ بتائی گئی کہ ان کا فرقہ الگ ہے ۔وہ شیعہ فرقے سے سینکڑوں سالوں سے تعلق رکھتے ہیں یہ آج کی بات نہیں ان پر حملوں کی کوئی دوسری وجہ سامنے نہیں آئی، آج تک ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نظر نہیں آئی البتہ کچھ لوگ حفاظتی تحویل میں ضرور لیے گئے ہیں اور آئے دن عدالت میں پیشی کے دوران ان کی تصاویر چھپتی رہتی ہیں تاہم آج ہونے والے دہشت گرد حملے کی نوعیت الگ ہے ۔ یہ پاکستان کے عدالتی نظام پر حملہ معلوم ہوتا ہے وکلاء برادری کو نشانہ بنانا قابل مذمت ہے کیونکہ ان میں باز محمد کاکڑ اور بلال انور کاسی جیسے لوگ نشانہ بنائے گئے جنہوں نے انسانوں کی ہمیشہ خدمت کی ہے ۔
کوئٹہ اسپتال میں دہشت گردی
وقتِ اشاعت : August 9 – 2016