|

وقتِ اشاعت :   August 14 – 2016

کوئٹہ : جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ وزیراعظم اور نواز شریف کو اپوزیشن اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی کا نوٹس لیکر باہمی طور پر کشمکش کو ختم کرنا چاہیے۔ سلامتی کے امور پر پارلیمانی کمیٹی تشکیل پاتی ہے تو خیر مقدم کریں گے۔ یہ یہ بات انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ بار روم میں چیف جسٹس بلوچستان محمد نور مسکانزئی ، وکیل رہنماء علی احمد کرد اور دیگر وکلاء سے سانحہ کوئٹہ پر تعزیت کے موقع پر خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ جے یو آئی بلوچستان کے امیر مولانا فیض محمد، صوبائی جنرل سیکریٹری سکندر ایڈووکیٹ، سابق وفاقی وزیر رحمت اللہ کاکڑ اور دیگر رہنماء بھی موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمان نے وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ کوئٹہ ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ یہ آئین ،قانون اور پوری پاکستانی عوام پر حملہ ہے۔ اس وقت صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورا عالم اسلام آزمائش میں مبتلا ہے ۔ افغانستان ، عراق، لیبیا، شام ، کشمیر اور دیگر مسلم خطے حالت جنگ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے ۔ اسلام کے معنی ہے دوسرے کو سلامتی دینا ہے لیکن بعض عناصر اسلام کے خوبصورت چہرے پر بد نما داغ بنے ہوئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ متحد ہوکر ظلم کے خلاف لڑیں۔ اس صورتحال میں ہمیں سیسہ پلائی دیوار بن کر آگے بڑھنا ہوگاتاکہ دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ کوئٹہ ان کا اپنا گھر ہے ، اس شہر اور صوبے سے ان کی قربت ہے ۔ سانحہ پر دلی صدمہ ہوا ہے۔ بلوچستان کے وکلاء جو لائحہ عمل تیار کریں گے جے یو آئی ان کے ساتھ ہوگی۔ میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری وکلاء برادری کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے اور قوم ایک ہی لمحے میں ایک بڑی تعداد میں دانشوروں سے محروم ہوئی ہے ۔ یہ ایک قومی سانحہ اور نقصان ہے اور ہم سب اس کرب میں برابر کے شریک ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انہوں نے کراچی جاکر اسپتال میں سانحہ کوئتہ کے زخمیوں کی عیادت کی اور آج کوئٹہ آنے کا مقصد بھی یکجہتی اور تعزیت کا اظہار کرنا تھا۔ بار روم میں وکلاء اور ججز صاحبان سے سے اجتماعی طور پر شہداء کیلئے تعزیت کی ۔اللہ تعالیٰ ان کی شہادتوں کو قبول فرمائے ،جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام فرمائے۔ ، زخمیوں کو صحت کاملہ اورمتاثرین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ یہ کرب مرحلہ ہے اور ظلم کی ایک داستان ہے جو کسی بھی وقت نیا باب کھول سکتی ہے۔ پوری قوم کو صف آراء ہوکر ظالموں کے خلاف جنگ لڑنا ہوگی تاکہ قوم کے عام آدمی کو امن نصب ہوسکے۔ اپوزیشن اور وفاقی وزیر داخلہ کے درمیان الزامات کی جنگ کے سوالات پر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ ایک دوسرے پر ذمہ داریاں ڈالنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داریاں ہیں اگر کہیں پر کمزور اور کوتاہی ہے تو مشترکہ کمزوری سمجھ کر اس کی اصلاح کی کوشش کریں ۔ کوئی خلاء اگر کہیں پر موجود ہے تواس خلاء کو ملکر پورا کرنا ہوگا ۔اکیلے ایک طاقت کچھ نہیں کرسکتی ۔یہ کہنا کہ میں نے تو سب کچھ کیا ،دوسرے نے کمزوری دکھائی۔ ایسا ان حالات میں ملک میں کسی کیلئے بھی ٹھیک نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ایک نام پڑ گیا ہے ، ہمیں ابتداء ہی میں اس پر تحفظات تھے۔ ہم نے کہا تھا کہ اس پلان میں امتیازی حصے نہیں ہونے چاہیے،ہر قانون ہر فرد کیلیے برابر ہونا چاہیے ۔ امتیازی سلوک سے شکایتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس وقت سیاسی اور مذہبی حلقوں سمیت مختلف اطراف سے شکایتیں ہورہی ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان میں امتازی اقدامات سوالیہ نشان ہیں۔ اگر کوئی ناکامی ہے تو اسی وجہ سے ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی کے سوال پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیراعظم کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے۔ گزشتہ دنوں جب پارلیمنٹ میں ایسی صورتحال پیدا ہوئی تووزیراعظم فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن لابی میں گئے اور اپوزیشن لیڈر سمیت تمام اپوزیشن ارکان کو خود ایوان میں لئے آئے جس سے اچھا ماحول پیدا ہوا۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری دونوں باہمی طور پر یہ کشمکش ختم کرائیں کیونکہ اس وقت قومی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ ایسے وقت میں جب قومی یکجہتی کی ضرورت ہے اور سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین اگر ایک دوسرے کے خلاف اس طرح بیانات جاری کریں گے یعنی زبان سے کہہ کچھ اور رہے ہیں اور کرکچھ اور رہے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ قومی سلامتی امورسے متعلق پارلیمانی کمیٹی بنتی ہے اور وزیراعظم اپنی نگرانی میں سب کو بٹھاتے ہیں تو یہ اچھی پیشرفت ہوگی۔ ہم نے پہلے بھی اسمبلی میں کہا تھا کہ قومی سلامتی کے تمام امور اسٹیک ہولڈر کو بیٹھ کر دیکھنا چاہیے۔ وزیراعظم اپنی نگرانی میں کام کریں اور اصلاحات بھی کریں۔ اس وقت قوم کی نظریں پارلیمنٹ ،قائدین اور سیاسی جماعتوں پر ہیں ، ہمیں ان تمام چیزوں کو از سرنو دیکھنا چاہیے۔ وزیراعظم مودی کے پاکستان مخالف بیان اور غیر ملکی مداخلت کے سوال پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزارت خارجہ نے سوچ سمجھ کر بیرونی مداخلت کا بیان دیاہوگا۔ہم طویل عرصے سے یہ بات ہم سن رہے ہیں کہ بیرونی ہاتھ حالات خراب کررہے ہیں ۔ہمیں بیرونی ہاتھ کا راستہ روکنا ہوگا۔ ہم معاملات کو بنانے کی جتنی کوشش کررہے ہیں صورتحال کیوں اتنی بگڑ تی جارہی ہے ۔ خطے میں یقیناًکچھ قوتیں پاکستان میں امن نہیں چاہتیں ۔ پاکستان میں عدم استحکام سے خطے میں ان قوتوں کے مقاصد پورے ہوتے ہیں اس لیے وہ یہاں حالات خراب کرتی ہیں۔