پی پی پی کے ہائی کمان نے اپنے اراکین قومی اسمبلی اور سینٹ کو تاکید کی ہے کہ حکومت کے خلاف کارروائی میں تیزی لائی جائے اور ن لیگ حکومت کے گرد گھیرا زیادہ تنگ کیا جائے۔ حزب مخالف کی جماعتوں سے تعاون کو بڑھایا جائے تاکہ حکومت کے خلاف ایک موثر محاذ قائم ہو ۔یہ سب باتیں اس وقت سامنے آئیں جب بے لگام وزیر داخلہ نے اپنے ذاتی عناد کی بنیاد پر پی پی پی کے رہنماؤں پر الزامات لگائے اور ایان علی کے اسکینڈل کو پی پی پی کے رہنماؤں سے جوڑنے کی کوشش کی بلکہ انہوں نے قابل اعتراض الفاظ استعمال کیے اور اپنی ذاتی نفرت کا اظہار کیا۔ اس سے قبل وزیر داخلہ کی قومی اسمبلی کے تقریر کے دوران پوری اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس کا اور ان کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔ وزیراعظم خود جا کر اپوزیشن کے اراکین اسمبلی کو منا کر واپس لائے لیکن چوہدری نثار کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی ۔ ان کا تکبر اور غرور اپنی جگہ پر قائم و دائم نظر آیا ،ان کا تکبر اور غرور اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ مقتدرہ کے نمائندہ ہیں مسلم لیگ کی جانب سے آئندہ وہی وزیراعظم ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کو مقتدرہ کی زبردست حمایت حاصل ہے لیکن ان کی مخالفت بہت زیادہ ہے ۔ چھوٹے صوبوں خصوصاً کے پی کے ‘ سندھ اور بلوچستان میں انتہائی غیر مقبول شخصیت ہیں کیونکہ ان صوبوں کے عوام کو تکبر اور غرور پسند نہیں ہے ۔وزیر داخلہ کی حیثیت سے وہ دوسرے صوبوں کو ساتھ لے کر چلنے میں ناکام رہے ہیں ۔ سندھ میں وزراء اور سیاسی رہنماء چوہدری نثار کو سندھ کا وائسرائے سمجھتے ہیں اور رینجرز کو استعمال کرکے سندھ کے اندر من مانی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں اس پر وہ اکتفا نہیں کرتے بلکہ سندھ کے منتخب نمائندوں کے خلاف تضحیک آمیز اور قابل اعتراض زبان استعمال کرتے ہیں اور اپنی نسلی برتری کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چوہدری نثار اور نواز شریف دراصل سیاسی جدوجہد کی پیدوار نہیں ہیں بلکہ وہ غیر سیاسی انتخابات جو جنرل ضیاء الحق نے 1985ء میں کرائے تھے اس کی پیدوار ہیں اگر سیاسی جماعتیں ان انتخابات کا بائیکاٹ نہ کرتیں تو آج چوہدری نثار اور میاں نواز شریف او ربعض دیگر لوگوں کا نام و نشان نہیں ہوتا ۔مقتدرہ سندھ میں ایم آر ڈی کی کامیاب تحریک سے خوفزدہ ہوگئی تھی اس نے یہ فیصلہ اس وقت کر لیا تھا کہ کراچی سے معاشی اور صنعتی سرگرمیوں کے مرکز کو وسطی پنجاب منتقل کیاجائے جس کی وجہ سے موجودہ سرمایہ کاروں اور کارخانے داروں کو کھلی چھوٹ دی گئی تھی کہ پنجاب کو صنعت کا سب سے بڑا مرکز بنایا جائے۔ ان صنعت کاروں اور کارخانے داروں کو کسی بھی حد تک کرپشن کرنے کی اجازت تھی بلکہ بعض کراچی کے صنعت کاروں کو یہ پیشکش بھی کی گئی تھی کہ وہ اپنا سرمایہ کراچی اور حب سے پنجاب منتقل کردیں تو ان کو مزید سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اس میں یہ یقین دہانی بھی شامل تھی کہ بڑے پیمانے پر بجلی کی چوری ‘ ٹیکس کی چوری کے علاوہ کسی مزدور تنظیم کو ہڑتال کرنے نہیں دیا جائے گا ہڑتال کی تمام کوششوں کو سختی سے کچل دیا جائے گا۔ تاجر لیگ کا قیام اسی مقصد کے لئے عمل میں لایا گیا تھاکہ پی پی پی اور دوسری سیاسی جماعتوں کو صوبہ بدر کرنا تھا ۔ 1985ء سے لے کر آج تک پنجاب میں تاجر لیگ کی حکومت ہے عمران خان کو ایک پریشر گروپ کے طورپر استعمال کیا جارہا ہے اس کو شاید پاور نہ ملے۔ تاجر لیگ نے بڑی دولت اکٹھی کی ہے اوربدولت وہ ہر الیکشن جیتنے کی استعداد رکھتی ہے۔ چوہدری نثار اپنے آپ کو پاکستان میں دائمی رہنماء اور وزیر سمجھنے لگے ہیں اس کا علاج صرف اور صرف جمہوری قوتوں کا یکجا ہونا ہے اور حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہوگا ورنہ چوہدری نثار سندھ اور بلوچستان کے وائسرائے ہی رہیں گے ان کو اس مصب سے ہٹانا آسان کام نہیں ہوگا ۔