|

وقتِ اشاعت :   August 16 – 2016

بلوچستان ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے اس کی وفاق میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے وفاقی حکومت اور اس کے اداروں میں بلوچستان کے مفادات کی کوئی نگرانی نہیں کرتا بلوچستان کے نام پر غیر بلوچوں کو زیادہ اہمیت اور اولیت دی جاتی رہی اور بلوچستان کے حقیقی وارثوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ۔ حیلے بہانوں سے بلوچستان کے حقیقی عوام کی زبردست حق تلفی کی گئی ابھی تک بلوچستان میں سالانہ اور ماہانہ ترقیاتی پروگرام کو مقتدرہ کی مرضی سے جاری رکھا گیا ہے پورے ملک میں طویل مدتی معاشی منصوبہ بندی رائج ہے جبکہ بلوچستان کے ترقیاتی پروگرام میں ہفتہ وار تبدیلی کی جارہی ہے سارے فنڈ ایم پی اے حضرات کے حوالے ہیں ان حضرات نے آئندہ پچیس سالوں کے سارے ’’ترقیاتی پروگرام ‘‘ بنا لیے ہیں اوران کو صوبائی اسمبلی سے منظور کروالیا ہے آئندہ پچیس سالوں تک صوبہ کی نمائندہ اسمبلیاں اس بات کا انتظار کریں کہ ‘‘ جاری منصوبے ‘‘ مکمل ہوں تو وہ اپنی اسکیمیں بنا ئیں بہر حال موجودہ اسمبلی نے آئندہ پچیس سالوں کی معاشی بجٹ پر زبردستی قبضہ کر لیا ہے ۔ دوسری جانب یہ دیکھا جائے کہ 1985ء سے لے کر آج تک ایم پی اے حضرات کے پروگرام کا صوبائی یا ملکی معیشت پر کیااثرات پڑے ہیں ۔ کوئی ایم پی اے یہ نہیں دکھا سکتا کہ اس کی ایک اسکیم کی وجہ سے لوگوں کو روزگار ملا ہے یا اس سے صوبے کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے دوسرے الفاظ میں 1985ء سے لے کر آج تک تمام ترقیاتی فنڈ ایم پی اے حضرات کے ذاتی جیبوں میں چلے گئے ہیں مقتدرہ اس کا نوٹس کیوں نہیں لیتی یہ منصوبے فوری طورپر بند کیوں نہیں کیے جاتے ۔ ستر ارب سالانہ ایک بہت بڑی رقم ہوتی ہے ۔ اس کی سرمایہ کاری سے بلوچستان کے کم سے کم ایک لاکھ افراد کو روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے ۔ صرف سیاسی وجوہات کی بناء پر ان تمام وسائل اور دولت کو ضائع کیا جارہا ہے ۔ صرف کچھی کا میدانی علاقہ 74لاکھ ایکڑ پر مشتمل ہے ۔ یہ انتہائی زرخیز زمین ہے ۔اس کے چاروں اطراف بند باندھ کر اس کو سیراب کیا جا سکتا ہے شایداس کے لئے ایک سال کے فنڈز کا فی ہیں یہ زمین بلوچستان کو غذائی طورپر نہ صرف کفیل بنائے گی بلکہ پھل اور زرعی اجناس کی خطے کے ممالک کی ضروریات بھی پوری کر سکتاہے اس طرح 1200کلو میٹر طویل ساحل ہے یہاں پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گنجائش ہے ساحل مکران نہ صرف ملک کے اندر پروٹین کی تمام ضروریات کو پوری کرنے کی اہلیت رکھتا ہے بلکہ ملک کے لئے دس ارب ڈالر سالانہ غیر ملکی دولت کما سکتا ہے ان دو شعبوں کی موجودگی میں ایم پی اے حضرات کو گٹر تعمیر کرنے کےَ کا فنڈزدینا انسانیت کے لئے ظلم ہے اور عوام کے ساتھ نا انصافی ہے اس طرح بلوچستان کے دو اہم ترین شعبے ہیں ان میں ایک گلہ بانی اور دوسرا معدنیات کا شعبہ ہے ان دونوں شعبوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں ۔ انکو نظر انداز کیا گیا ہے ان شعبوں میں بجٹ کے لئے صرف تنخواہیں اور چند الاؤنس دئیے جارہے ہیں اور ان شعبوں کی ترقی کے لئے کوئی وسائل فراہم نہیں کیے جارہے ہیں ۔ تیل ‘ گیس‘ اسٹیل ’ خام لوہا ‘ کاپر اور سونے کے ذخائر کی ملکیت کا اندازہ کھربوں ڈالر میں ہے صرف ریکوڈک کے ذخائر کا تخمینہ پانچ کھرب ڈالر لگایا گیا ہے اسی طرح تیل ‘ گیس ‘ خام لوہا ‘ اسٹیل اور المونیم کی ذخائر کی ملکیت کا اندازہ بھی کھربوں ڈالر میں ہے ۔ ہم ملٹی نیشنل کمپنی کے سرمایہ کاری کے خلاف ہیں ملٹی نیشنل کمپنی نوے فیصد سے زیادہ دولت خود لے جاتی ہے۔ اور مقامی لوگوں اور حکومت کے لئے بہت تھوڑی سے رقم رہ جاتی ہے بلوچستان میں منصوبہ بندی اس طرح سے کی جائے کہ ملٹی نیشنل کارپوریشن اس میں ہاتھ نہ بٹائیں تو زیادہ اچھا ہے۔ بہر حال وفاقی بلوچستان کی ترقی کو زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں او رحکمران شاید اس بات پر خوش ہیں ایم پی اے حضرات اس کی حمایت کررہے ہیں کہ سیاسی وجوہات کی بناء پر ایم پی اے فنڈز جاری رکھے جائیں ہر سال ہر ایک ایم پی اے کے حصے میں 55کروڑ روپے آتے ہیں یہ بہت بڑی کرپشن ہے جس کو فوراً بند ہونا چائیے بلکہ عوام سے اپیل ہے کہ اس کرپشن کے خلاف اپنی زبردست نفرت اور ناراضگی کا اظہار مختلف طورطریقوں سے کریں تاکہ کرپشن ختم ہو اور معاشی ترقی کے ثمرات صرف اور صرف لوگوں کو ملیں ۔