|

وقتِ اشاعت :   August 17 – 2016

خضدار : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ سی پیک پر نہیں نیتوں پر اعتراض ہے ،سانحہ کوئٹہ افغانستان میں بوئے جانی والی بیج کے حاصلات میں سے ایک ہے ،قوم پرستوں کو بنیادی نقاط پر اتحاد کی دعوت دیتے ہیں ،حکومتوں کی تبدیلی سے بلوچستان کے حالات تبدیل نہیں ہوئے ،مشرف کے دور میں لاشیں ملتی تھیں متوسط طبقے والوں کے دور میں اجتماعی قبرستان ملنے لگے اور اب بھی اس کا تسلسل جاری ہے ،ریاست سے وفاداری کا مطلب مکاری ،بے ایمانی ،بے ضمیری اور چاپلوسی ہے تو بی این پی وفادار نہیں ،ون یونٹ کے اختتام سے لیکر آج تک بلوچستان میں کوئی با اختیار وزیر اعلیٰ نہیں آیا ،اختیارات اب بھی مرکز کے پاس ہیں ،ٹینکی لیکس میں جس کا بھی ہاتھ ہے مگر اس کا مرکز ی ذمہ دار ٹیم کے کپتان ہی ہوگا انہیں اپنی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی ،اسلام آباد میں آل پارٹیز کا انعقاد کر کے ہم نے سی پیک کے حوالے سے تمام پارٹیوں کو اپنا موقف پیش کیا اور حکومت و اپوزیشن میں شامل جماعتوں نے ہم سے اتفاق کر لیا،قبائلی تنازعات کے تصفیہ میں وہی قوتیں رکاوٹ ہیں جو ہم سب سے طاقتور ہیں،31 اگست کو شہدائے کوئٹہ وکلاء کے یاد میں خضدار میں جلسہ ہو گا عوام بڑی تعداد میں شرکت کریں ،ان خیالات کا اظہار انہوں نے خضدار میں صحافیوں سے تفصیلی گفتگو کے دوران کیا اس موقع پر بی این پی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری لعل جان بلوچ ،بی این پی کے مرکزی کمیٹی کے اراکین عبدالرؤف مینگل ،سردار نصیر احمد موسیانی ،ڈاکٹر عزیز بلوچ ،ڈاکٹرقدوس بلوچ ،ضلعی صدر آغا سلطا ن ابراہیم ،سردار بلند خان غلامانی ،سابق رکن صوبائی اسمبلی محمد اکبر مینگل ،بی این پی ضلع خضدار کے سینئر نائب صدر حیدر زمان بلوچ ،جنرل سیکرٹری عبدالنبی بلوچ ،تحصیل صدر سفر خان مینگل انفارمیشن سیکرٹری سیف اللہ شاہوانی اور دیگر ضلعی عہدیداران بھی موجود تھے بی این پی کے سربراہ نے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں کوئی ترقی کی مخالف نہیں ہاں اگر ترقی ہمارے نوجوانوں کی لاشوں پر سے ہو کر گزرتی ہے پھر ہم ایسے ترقی کی ضرور مخالفت کرتے ہیں کرتے ررہیں گے سی پیک کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم سی پیک کی مخالف نہیں ہم مائنڈ سائیٹ کی مخالفہیں سی پیک کے حوالے سے بلوچستان کے عوام کو جو خدشات ہیں انہیں دور کرنا وفاقی حکومت کی زمہ داری ہے سی پیک کے حوالے سے ہمارے اور بلوچ قوم کے جو خدشات ہیں ان کے متعلق ہم نے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں حکومت و اپوزیشن میں شامل تمام پارٹیوں کے زمہ داران نہ صرف شریک ہوئے بلکہ ہماری جانب سے پیش کی جانی والی موقف کی حمایت کی اور کانفرنس میں اس متعلق متفقہ قرار داد منظور بھی کرائی گئی ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے موقف پیش کر کے کامیابی حاصل کی سردار اختر جان مینگل نے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سانحہ کوئٹہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے جس میں جو وکلاء ،صحافی شہید ہوئے وہ سیاسی کارکنان بھی تھے اپنے اپنے علاقوں میں سماجی کارکن بھی تھے گزشتہ دس سالوں سے بلوچستان کے کریم کو مختلف طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے پہلے سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا ،اس کے بعد صحافیوں استاد اور دانشوروں کو نشانہ بنایا گیا اور سانحہ کوئٹہ میں وکلاء کو نشانہ بنایا گیا ،سانحہ کوئٹہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں بوئی جانے والی اسی بیج کے اثرات ہیں جنہیں ہمارے اختیارداروں نے اسلام کا رنگ دیکر افغانستانبھیجا حالانکہ بنیادی طو رپر وہ اسلام کا نہیں بلکہ ڈالر کے اثرات تھے قوم پرستوں کے اتحاد کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ سیاست میں کوئی عمل حرف آخر نہیں ہوتا اگر آج کوئی بلوچ قوم کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ہماری موقف کی تائید کرتا ہے تو ہمیں بھی چائیے کہ ہم بھی اس سے قربت اختیار کریں اور میں ان تمام قوم پرستوں کو بلوچستان کے بنیادی نقاط پر اتحاد کی دعوت دیتا ھوں جو یہ سمجھتے کہ بلوچستان کے ساتھ انہتائی نا انصافیاں ہو رہی ہیں ایک سوال کے جواب میں سردار اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ اگر ریاست سے وفاداری کا مطلب مکاری ،چاپلوسی ،بے ایمانی ،کرپشن ،اقربا پروری ہے تو بی این پی وفادار نہیں ،میگاکرپشن کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میگاکرپشن میں بیوروکریسی یا جو بھی ملوث ہے مگر بنیادی زمہ داری اس وقت کی کپتان پرعائد ہوتی ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ نیچے کرپشنہو اور اوپر سلطنت کرنے والے کے علم میں یہ بات نہیں ہو ملوث سب ہیں پھنسایا گیا ایک کو ،ہم سمجھتیہیں کہ نواز شریف کی حکومت میں بھی ہمارے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو مشوف کے دور میں ہوتا تھا اور اسی طرح مشرف کے دور میں ایک ایک لاش ملتا تھا متوسط طبقہ کے اتحادی حکومت میں بلوچستان کے لوگوں کی اجتماعی قبرستان دریافت ہونے لگے اور اب بھی جشن آزادی کی رات بھی کوئٹہ میں معصوم بلوچ نوجوانوں کی نعشیں پھینکی گئی اس تبدیلی کے علاوہ کچھ اور تبدیلی نہیں آ بلوچستان میں صوبوں کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہونگے جب تک اختیارات مرکز سے صوبوں کی جانب منتقل نہیں کئے جاتے ون یونٹ کے خاتمہ سے لیکر آج تک بلوچستان میں کوئی بھی وزیر اعلیٰ با اختیار نہیں آیا اور اگر جس وزیر اعلیٰ نے اپنی اختیارات کے لئے چیخ و پکار کی اسے اقتدار سے محروم رکھا گیا قبائلی تنازعات کے تصفیہ کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا بی این پی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ قبائلی تنازعات کی تصفیہ میں طاقتور عناصر رکاوٹ ہیں 31 اگست کو سانحہ کوئٹہ میں شہید ہونے والے وکلاء،صحافیوں اور شہریوں کے یاد میں خضدار میں جلسہ منعقد کیا جا رہا ہے عوام اور سیاسی کارکنان سے گزارش ہے کہ وہ جلسہ میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں تاکہ ہم سب ملکر شہدا کو خراج تحسین پیش کر سکیں