|

وقتِ اشاعت :   August 17 – 2016

وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی جس میں دوسرے لوگوں کے علاوہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں داخلی سلامتی کے امور پر غور کیا گیا اور بعض اہم فیصلے کیے گئے ۔ان میں سب سے اہم ترین فیصلہ یہ تھا کہ داخلی سلامتی کو زیادہ موثر بنانے کے لئے پیرا ملٹری فورس کے 29نئے ونگ قائم کیے جائیں گے ۔ اس میں سرحد کی صورت حال کے ساتھ ساتھ داخلی سلامتی کے معاملات کو خاص اہمیت دی گئی ہے یہ ایک اہم فیصلہ ہے اور اس کے دوررس نتائج بر آمد ہوں گے خصوصاً سرحدوں پر کشیدگی کی وجہ سے دفاعی انتظامات کو زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کے مسلح افواج خصوصاً پیرا ملٹری فورسز کو ایک طویل سرحد کی حفاظت کرنی ہے ۔ اس میں ایک طویل ترین سرحد افغانستان اور دوسرا بھارت کے ساتھ ہے ۔ ایران کے ساتھ بھی سرحد 900کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے اتنے وسیع سرحد پر حفاظتی انتظامات کوئی آسان کام نہیں ہے شاید ماہرین کے مشورے کے بعد حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پیرا ملٹری فورسز کے 29نئے ونگ قائم کیے جائیں گے جو ایک انتہائی خوش آئند قدم ہے ۔ہمارا یہ مشورہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں سرحدوں کو زیادہ محفوظ بنایا جائے کیونکہ سرحدی علاقوں میں حالیہ دنوں میں کشیدگی میں کچھ زیادہ اضافہ ہوگیا ہے ۔ اس میں افغانستان کی حکومت کا معاندانہ رویہ اور ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش ‘ سرحدی معاملات کو حل کرنے میں روڑے اٹکانا کابل انتظامیہ کا معمول بن گیاہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد سرحدوں پر سختی ایک ضرورت بن چکی ہے کہ کسی بھی شخص کو غیر قانونی طورپر پاکستان میں داخل نہ ہونے دیا جائے ۔ ویزا ‘ پاسپورٹ اور دیگر سفری کاغذات رکھنے والوں کو پاکستان کی حکومت اور عوام خوش آمدید کہتی ہے اور وہ قانونی دستاویزات رکھنے والے لوگ ہمارے مہما ن ہوں گے ان کے عزت اور احترام میں کوئی کمی نہیں ہوگی اس لئے سرحد پر کچھ تعمیرات کی گئیں تاکہ لوگوں کی آمد و رفت کو زیادہ آسان بنایا جائے اس طرح حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایران کے سرحدی قصبہ تفتان میں بھی ایسا ہی گیٹ تعمیر کیاجائے گا جس کا مقصد لوگوں کو سفری سہولیات فراہم کرنا ہے ۔ ایران دہائیوں پہلے یہ تمام سہولیات فراہم کر چکا ہے لیکن پاکستان کی جانب سے کسی قسم کی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں ہیں ۔آج پورے ستر سال بعد یہ حکومت کو یہ خیال آیا ہے کہ اس دور دراز سرحدی علاقے میں اپنے ہی لوگوں کو ضروری سہولیات فراہم کرے ۔ اب یہ خوش آئند فیصلہ ہوچکا ہے جلد ہی پاکستان کے عوام کو تمام جدید سہولیات دورد راز قصبہ میں بھی فراہم کی جائیں گی ۔ جہاں تک داخلی سلامتی کا تعلق ہے ہم اب بھی اپنے اس رائے پر قائم ہیں کہ مقامی پولیس اور لیویز کو زیادہ سے زیادہ ذمہ داریاں سونپی جائیں چونکہ پولیس اور لیویز بلوچستان کے مقامی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں ان کی جڑیں عوام الناس میں موجود ہیں اسلئے وہ پولیس کا کردار ادا کرنے میں زیادہ اہلیت اور قابلیت رکھتے ہیں بہ نسبت پیرا ملٹری فورس کے سپاہی کے جو علاقے سے نا بلد اور مقامی لوگوں سے ناشناس ہے ۔ اس لئے عوام کا تعاون مقامی پولیس اور لیویز کے اہلکار سے زیادہ ہوتا ہے ۔ اور داخلی سلامتی صرف اور صرف عوام کے تعاون سے یقینی بنائی جا سکتی ہے ہم نے ان کالموں میں بلوچستان لیویز کو جدید خطوط پر منظم کرنے کی رائے دی تھی کہ اے ایس پی لیول کے افسروں کو لیویز تھانوں کا ناظم اعلیٰ بنایا جائے ۔ اے ایس پی ‘ پولیس کے اے ایس پی کے ہم پلہ ہونا چائیے ان کی تربیت میں کوئی کمی نہ ہو تاکہ وہ اپنی فورس کو جدیدخطوط پر منظم کرے اور ان کی با قاعدہ ٹریننگ ہو تاکہ وہ پولیس اور پیرا ملٹری فورس کا محتاج نہ رہیں ۔ نہ ہی صوبہ کو یہ ضرورت پڑے کہ وہ وفاقی فورسز کو طلب کرے کہ وہ صوبہ میں امن وامان بحال کریں ۔