|

وقتِ اشاعت :   August 20 – 2016

کوئٹہ :  بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ ایک ہفتے سے جناح بیراج سے مسخ شدہ اور ناقابل شناخت افراد کی لاشوں کے ملنے کا سلسلہ جاری ہے، جو اب تک دو درجن سے زائد ہوگئی ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ لاپتہ بلوچ اسیران کی لاشیں ہیں۔ جنہیں پنجاب کے اذیت خانوں میں شہید کرکے ثبوت مٹانے کیلئے لاشیں دریا ؤں میں بہادی جارہی ہیں۔ اس سے پہلے گزشتہ سال کئی لاشیں سرگودھا دریا سے بھی ملی تھیں۔ ہماری خدشات اور مطالبات کے باوجود نہ کوئی تحقیقات ہوئیں اور نہ ڈی این اے کیا گیا۔ ہم عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچ نسل کشی کو روکنے اور ناقابل شناخت لاشوں کی ڈی این اے کیلئے حکمران پر دباؤ ڈالے۔ اسی طرح اجتماعی قبروں کے حوالے سے بھی عالمی برادری کی خاموشی حیران کن ہے۔ جہاں سے سینکڑوں ناقابل شناخت لاشیں بغیر ڈی این اے اور تحقیق کے دفناجاتی ہیں۔ ہزاروں لاپتہ افراد کیلئے اذیت گاہیں کم پڑنے پر اُنہیں اجتماعی قبروں میں دفنانے کے بعد دریاؤں میں بہانے کا سلسلہ شروع ہونے کی خدشات زور پکڑتی جارہی ہیں۔ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں حراستی قتل عام، فوجی آپریشن اور بلوچ نسل کشی تیزی سے جاری ہے۔ آج آواران ہسپتال میں بی این ایم کے کارکن نوربخش ولد خان جان کی لاش پہنچائی گئی، جنہیں 30 جولائی 2016 کو پاکستانی فوج نے آواران جکھرو سے آپریشن کے دوران اغوا کرکے لاپتہ کیا تھا۔ ہم شہید نوربخش بلوچ کو سرخ سلام اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی مظالم کے سامنے جھکنے کے بجائے زندانوں میں اذیتیں سہہ کر جام شہادت نوش کی۔ دو اور لاشیں آواران ہسپتال پہنچائی گئیں، جن کے نام دلاور ولد سلیمان سکنہ کولواہ کنری جنہیں ایک ہفتہ پہلے فورسز نے اغوا کیاتھا، اور مراد ولد قاسم سکنہ جھاؤ ہیں۔ اگست کے مہینے میں اب تک130سے زائد افراد فورسز اور اُس کے پراکسیوں کے ہاتھوں قتل کئے جاچکے ہیں۔ جن میں 90 کے قریب پراکسیوں کے ہاتھوں کوئٹہ واقعے میں شہید ہوئے ہیں ۔ جبکہ ڈیرہ بگٹی آپریشن میں 28 ، کوہلو آپریشن میں خاتون سمیت چار، مشکے میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ نے ماسٹر سلیم شاہوانی اور جھاؤ میں داعش نے لعل جان بلوچ ، کولواہ میں بمباری سے شاہد ندیم، گومازی فوجی آپریشن میں امین بلوچ او ر کوئٹہ سے تین لاپتہ بلوچ فرزندوں کی لاشیں ملیں۔