کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے آواران میں تین مغوی بلوچ فرزندان کی حراستی قتل اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ فورسزکے ہاتھوں بلوچستان کے طول و عرض سے اغواء ہونے والے نوجوانوں کی لاشیں تسلسل کے ساتھ برآمد ہورہی ہیں۔ 30جولائی کوآواران جھکرو سے اغواء ہونے والے بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے کارکن نوربخش ولد خان جان سمیت13اگست کو اغواء ہونے والے دلاور ولد سلیمان اور مراد ولد قاسم کو اذیت گاہوں میں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے فورسز نے ان کی لاشوں کو آواران انتظامیہ کے حوالے کردیا۔فورسز اپنی جرائم کو چھپانے کے لئے قیدیوں کو حراست میں قتل کرکے انہیں مقابلے میں مارنے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس نئے پالیسی کے تحت اب تک سینکڑوں مغوی نوجوان فورسز کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔ ریاستی مشینری بلوچ آزادی کی تحریک کے خلاف متحد ہو چکی ہے اس لئے میڈیا ایسے نوجوانوں کی حراستی قتل پر بھی سوال نہیں اُٹھاتی کہ جن کے اغواء کی خبریں پہلے سے ہی میڈیا میں آ چکی ہیں۔فورسز کے بیانات کو ہی سچھ ثابت کرنے کی کوشش میں مقامی میڈیا صحافتی اصولوں کو پامال کرنے کا مرتکب ہو رہی ہے۔ترجمان نے کہا کہ بدلتے ہوئے علاقائی حالات کے پیش نظر ریاستی ادارے بلوچ تحریک کی پزیرائی سے حواس باختگی کا شکار ہو چکے ہیں۔ بلوچستان میں نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کی قیادت میں ریلیوں کا اہتما م اور حسب معمول فورسز کے ٹرکوں کا ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال بلوچ تحریک سے ریاست اور اس کے گماشتوں کی نفسیاتی شکست کو ظاہر کررہی ہے۔