سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے وزیراعظم کے بعض اختیارات پر قدغن لگا دیا اور وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو کابینہ کے فیصلوں کا پابند بنا دیا ۔ فوری طورپر وزیراعظم کے تحت تمام مالی اختیارات ختم ہوں گے وہ ذاتی اورصوابدیدی طورپر کسی کو مالی معاونت یا اسکیم کے فنڈ جاری نہیں کر سکیں گے ۔ صوابدیدی گرانٹ بھی وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے صوابدید پر خرچ نہیں ہوسکیں گے بلکہ قانون سازی اور آرڈیننس کے اجراء کے لئے بھی کابینہ کی منظوری ضروری ہوگی۔ اب وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کو ذاتی طورپر فنڈز نہیں دے سکیں گے اس کے لئے کابینہ کی اجازت لازمی ہوگی ۔ سپریم کورٹ نے اپنے 80صفحات کے فیصلے میں یہ بالکل واضح کردیا ہے کہ وزیراعظم کا نام حکومت نہیں ہے وہ حکومت نہیں ہے ۔ پوری کابینہ کے فیصلوں کے مطابق حکومت کی جائے اور حکومتی فیصلے کیے جائیں۔ حزب اختلاف نے ہمیشہ یہ اعتراضات اٹھائے ہیں کہ نواز شریف اپنے آپ کو پاکستان کا بادشاہ سمجھتے ہیں اور شاہی طریقے سے حکومت کررہے ہیں ان کی ذاتی پسند اور نا پسند کو ہمیشہ اولیت حاصل رہی ہے ہر جگہ جاتے ہیں کابینہ یا اسمبلی کی منظوری کے بغیر اربوں روپے کے اسکیموں کا اعلان کرتے رہتے ہیں جیسا کہ یہ دولت ان کی ذاتی جائیداد ہے اور یہ قومی دولت نہیں جس کو ملکی قوانین کے مطابق خرچ کیاجائے ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد نواز شریف کے وہ تمام ذاتی اور انفرادی اعلانات کا لعدم ہوئے ہیں جو انہوں نے اقتدار سنبھالنے سے لے کر آج تک کیے ہیں دوسرے الفاظ میں نواز شریف کی بادشاہت اس فیصلے کے بعد ختم ہوگئی اور وہ اب کابینہ کے اراکین کے تابع ہیں اب کابینہ کے اراکین کی زیادہ اہمیت ہوگئی ہے اب وزیراعظم اپنے ہی وزراء کو نظر انداز نہیں کر سکیں گے بلکہ ان کو اعتماد میں لینے کی کوشش کریں گے پہلے توموصوف چند ایک آدھ وزیروں اور افسران سے مل کر پوری حکومت چلاتے تھے اور اکثر اراکین کابینہ کو نظر انداز کرتے تھے جس سے ملک میں مکمل بادشاہت کا تصور ملتا تھا اور یوں لگتا تھا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک نہیں جہاں پر پارلیمان اور آئین کی بالادستی ہے بلکہ نواز شریف نے پاکستان کو سعودی عرب سمجھ لیا اور سعودی بادشاہوں کی طرز حکمرانی کو رواج دینے کی کوشش کی،وہ تمام فیصلے ذاتی طورپر کرتے تھے اب سپریم کورٹ نے بہت بڑا روک لگا دیاہے اور امید ہے کہ کابینہ کے وزراء کے عزت و احترام میں اضافہ ہوگا اور تمام مکمل فیصلوں میں ان کی رائے کو اہمیت دی جائے گی جو ایک خوش آئند جمہوری عمل ہے اس سے عوامی راج کو استحکام ملنے کی توقع ہے ۔ اب یہ امید کی جاتی ہے کہ صوبوں میں بھی وزرائے اعلیٰ مالک کل نہیں ہوں گے وہ بھی اپنے وزراء کو اہمیت دینے کے پابند ہوں گے یہ اچھی حکمرانی کی ابتداء معلوم ہوتی ہے جس سے ملکی اور قومی معاملات کو ذاتی عینک سے ہٹ کر دیکھنا ہوگا۔ بلکہ صوبوں میں اب اجتماعی فیصلے ہوں گے ون مین شو کو ختم سمجھاجائے، ذاتی نمود و نمائش کا دور ختم ہوتا نظر آرہا ہے ۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلے کے بعد ہر شخص عدالت سے رجوع کرے گا اگر وزیراعظم یا صوبائی وزرائے اعلیٰ آئین کی اس تشریح کی خلاف ورزی کی کوشش کرینگے ۔ اس سے توقع ہے کہ ملک میں اچھی حکمرانی کی داغ بیل ڈالی جائے گی جب وزیراعظم آئین کا پابند ہوگا تو اس بات کے امکانات معدوم ہوجائیں گے کہ ان کی اولاد بھی اس طرح حکمرانی کرے گی بلکہ اس کو جدی پشتی سیاست کا خاتمہ سمجھ لینا چائیے ۔ آنے والے دور میں ولی عہد کا کوئی کردار نہیں ہوگا کیونکہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ تمام اجتماعی فیصلوں کے پابند ہوں گے ذاتی مرضی سے قومی دولت کو استعمال نہیں کر سکیں گے۔ اب دولت ولی عہدوں کے بھی استعمال میں نہیں آئے گی ۔