یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ملک میں بعض مدارس سیاسی وجوہات کی بناء پر قائم ہوئے ۔روس کے خلاف جنگ کے دوران ہزاروں مدارس سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے ۔ اس میں امریکی اور عرب ممالک کی زبردست مالی امداد شامل تھی ۔ بلوچستان جیسے غریب اور اس کے دور افتادہ علاقوں میں شاندار عمارتیں مدارس اور انکے ہوسٹل کے نام پر مہینوں میں قائم کی گئیں حکومت وقت اور امریکا کا یہ یقین تھا کہ اشتراکیت کو روکنے کے لئے دینی مدارس ضروری ہیں ۔ امریکا کی سرپرستی میں مدارس کا زیادہ بہتر استعمال یہ ہوا کہ وہاں سے مجاہدین بھرتی کیے گئے ،ان کے ہاسٹل دہشت گردی یا گوریلا جنگ کی تربیت کے لئے استعمال کیے گئے ۔ جب روس اچانک افغانستان سے نکل گیا خصوصاً اس خوش فہمی کے بعد کہ افغان کی فوج اور حکومت اتنی طاقتور ہے کہ وہ اپنا دفاع خود کر سکتی ہے ۔روس کا یہ فیصلہ صرف خوش فہمی ثابت ہوا اور روس نواز حکومت کو اس وقت شکست ہوگئی جب شمالی اتحاد نے حکومت کی حمایت ختم کردی اور جنرل دوستم کے دس لاکھ سے زیادہ رضا کار وں نے کابل حکومت کا دفاع نہیں کیا اور مجاہدین حکومت پر قابض ہوگئے ۔ روس نواز حکومت اقتدار سے بے دخل ہوگئی اس کے بعد امریکا اور عرب ممالک نے اپنی حمایت واپس لے لی ۔ لیکن مدارس کی اہمیت میں کمی واقع نہیں ہوئی امریکی اور عرب ممالک سے امداد بند ہوگئی لیکن جہاد کے نام پر دوسرے ذرائع نے مدارس کو فنڈ جاری کرنا شروع کردیا جو آج تک جاری ہے ۔ حیرانگی کی بات ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اربوں روپے سالانہ ان سرکاری سکولوں پر خرچ کررہی ہیں اور پوری ریاست اور ریاستی مشینری ان اسکولوں کی پشت پر ہے مگر آج تک ان کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔مدارس جن کے ذرائع آمدن آج تک نا معلوم ہیں وہاں تعلیم ‘ رہن سہن اور کھانے پینے کی بہتر سہولیات دستیاب ہیں حکومت نے ان کے ذرائع آمدن کو آج تک صیغہ راز میں رکھا ہوا ہے اور اس معاملے میں عوام کو اعتماد میں نہیں لیا جارہا۔ بعض سیاسی پارٹیاں مدارس چلا رہی ہیں وہ مدارس ان پارٹیوں کے لئے کارکن پیدا کررہے ہیں بعض رہنما سندھ حکومت کو دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ مدارس کی دوبارہ رجسٹریشن نہ کرے اور ان کے خلاف کارروائی نہ کرے اور نہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ ان مدارس کے آمدنی کے ذرائع کیا ہیں کیا وہ قانونی ہیں یا ان کے پیچھے کچھ اور مقاصد کار فرما ہیں۔ ہم ذاتی طورپر متوازی نظام تعلیم کے مخالف ہیں اور ہمار اخیال ہے ملک بھر کے تمام مدارس‘ اسکولوں اور تعلیمی ادارے حکومت کے ماتحت ہونے چاہئیں تاکہ ملک میں صرف اور صرف ایک نظام تعلیم ہو، ان میں عربی اور انگریزی اسکول نہ ہوں اچھی اور معیاری تعلیم ہر طالب علم کا بنیادی حق ہے حکومت یہ حق فوری طورپر تسلیم کرے اور تمام تعلیمی ادارے، سوائے اقلیتوں کے اسکولوں کے، سرکاری تحویل میں لیے جائیں۔ جتنی سہولیات طلباء کو حاصل ہیں ان میں کمی نہ کی جائے بلکہ اضافہ کیا جائے ۔خصوصاً مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو تعلیمی ادارے اور مدارس چلانے کی اجازت نہ دی جائے۔ تعلیم کے زیور سے ہر طالب علم کو آراستہ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست اپنی یہ ذمہ داری پوری کرے اور تمام مدارس اور تعلیمی اداروں کوحکومت کے ماتحت چلائے ۔ مشینری اسکول صدی سے زیادہ عرصہ سے کام کررہے ہیں ان کے خلاف کوئی شکایات نہیں ہیں لہذا روایتی اور قدیم مشینری اسکولوں کی انتظامیہ کو نہ چھیڑا جائے کیونکہ ان تعلیمی اداروں سے لاکھوں طلباء فیضاب ہوئے ہیں اور ان کو کبھی کوئی شکایت نہیں رہی اس لئے انکو کام کرنے کی اجازت دی جائے ۔ریاست اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور ہر معاملے سے جان نہ چھڑائے ،تعلیم کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے اور ریاست اچھی اور معیاری تعلیم ہر طالب علم کوبغیر کسی امتیاز کے فراہم کرے ۔
حکومت مدارس کو کنٹرول کرے
وقتِ اشاعت : August 23 – 2016