واشنگٹن : امریکا نے واضح طور پر پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ بلوچستان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے امریکی موقف پر پائے جانے والے تمام شکوک و شبہات کو ختم کر دیا۔
اس سے قبل بھی امریکی محکمہ خارجہ عمومی طور پر اس بات کا اظہار کرچکا ہے کہ وہ پاکستان کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور اس نے بلوچستان کے مسئلے کو عالمی سطح پر بھڑکانے کی ہندوستانی کوشش سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سےکہا کہ ہے کہ ‘امریکی حکومت پاکستان کی علاقائی سالمیت اور قومی وحدت کا احترام کرتی ہے اور بلوچستان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتی۔’
تاہم امریکی محکمہ خارجہ کے عہدے دار نے صوبے میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے جہاں حکومت پاکستان علیحدگی پسندوں اور مذہبی انتہاپسندوں سے برسرپیکار ہے۔
بین الاقوامی نگراں اداروں کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز اور باغی دونوں ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے عہدے دار کا کہنا ہے کہ ‘ہمیں وہاں(بلوچستان) میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش ہے جس کا اظہار ہم کئی برسوں سے اپنی ہیومن رائٹس کی رپورٹ میں کرتے رہے ہیں۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے باوجود ہم پاکستان میں تمام جماعتوں پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ اپنے اختلافات کو جائز سیاسی عمل اور پر امن طریقے سے حل کریں۔
بلوچستان میں فرقہ وارانہ اور نسلی اقلیتوں پر حملوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ کئی افراد لاپتہ بھی ہوئے ہیں اور بعض اوقات لاپتہ ہونے والے افراد کی تشدد زدہ لاشیں مضافاتی علاقوں سے ملتی ہیں۔
بلوچ قوم پرست سیکیورٹی فورسز پر لوگوں کی گمشدگی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جبکہ حکومت اس الزام کو مسترد کرتی ہے اور شدت پسندوں پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ لوگوں کو اغواء کرتے ہیں اور تاوان نہ ملنے پر انہیں قتل کردیتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اپنی تقریر میں ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی بلوچستان کی صورتحال کا تذکرہ کیا تھا اور اپنے سفارتکاروں اور میڈیا کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس مسئلے کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کریں۔
اس تقریر پر پاکستان میں شدید رد عمل آیا تھا اور اسلام آباد نے اسے عالمی اقدار کی خلاف ورزی اور اندرونی معاملات میں دخل اندازی قرار دیا تھا۔
نریندر مودی کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستانی حکام اور میڈیا نے موقف اپنایا تھا کہ ہندوستانی وزیر اعظم کشمیر میں انڈین فورسز کی جانب سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو چھپانے کیلئے بلوچستان کا کشمیر سے موازنہ کررہے ہیں جو کہ کشمیر کی طرح کوئی متنازع علاقہ نہیں ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی تھی کہ عالمی سطح پر کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کیا جاتا ہے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں کمشیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کی جاچکی ہے۔
بلوچستان کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے کی کوشش میں ہندوستان کا ساتھ بنگلہ دیشی حکومت اور سابق افغان صدر حامد کرزئی نے دیا۔
رواں ہفتے دورہ انڈیا میں بنگلہ دیشی وزیر اطلاعات حسن الحق نے کہا تھا کہ ‘بنگلہ دیش بلوچستان کے حوالے سے نریندر مودی کے موقف کی حمایت کرتا ہے اور ڈھاکا جلد اس حوالے سے اپنی پالیسی کا واضح اعلان کرے گا’۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی رواں ہفتے نئی دہلی میں موجود تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ نریندر مودی کے بیان کے بعد پاکستان کو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوجانا چاہیے۔
دریں اثناء امریکی محکمہ خارجہ کی نیوز بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے انڈیا کی جانب سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرانے کے فیصلے کے حوالے سے سوال کیا۔
اس کے جواب میں نائب ترجمان مارک ٹونر نے کہا کہ ہم نے ابتدائی رپورٹس دیکھی ہیں کہ بنگلور کی پولیس ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خلاف بغاوت کے الزام کی تحقیقات کررہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘ہم دنیا بھر میں آزادی اظہار رائے اور عوامی اجتماع کے حق کی حمایت اور احترام کرتے ہیں’۔ نائب ترجمان نے صحافی پر زور دیا کہ وہ بنگلور پولیس سے رابطہ کریں اور اس حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کریں۔
یاد رہے کہ ہندوستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کشمیر کے متاثرہ خاندانوں کے مستقبل کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد کرکے بغاوت کی مرتکب ہوئی ہے۔
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان نے انڈیا اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی ختم کرنے کیلئے مذاکرات بحال کریں۔
مارک ٹونر نے کہا کہ ہم خطے کی ترقی اور استحکام کیلئے انڈیا اور پاکستان کی جانب سے کی جانے والی ہر کوشش جس میں دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان ملاقات بھی شامل ہے، اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا دیرینہ موقف یہی ہے کہ ‘تعلقات کی بحالی اور عملی تعاون انڈیا اور پاکستان دونوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہوں گے اور ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ دونوں ممالک کشیدگی میں کمی کیلئے براہ راست مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔