|

وقتِ اشاعت :   August 26 – 2016

سریاب کوئٹہ شہر کا وہ قدیم ترین علاقہ ہے جہاں پر صوبے کے چھ سابق وزرائے اعلیٰ رہتے ہیں ان میں نواب اسلم رئیسانی ‘ سردار اختر مینگل ‘ میر ہمایوں خان مری ‘ نواب ذوالفقار علی مگسی بھی شامل ہیں ’ اس کے باوجود سریاب پسماندہ علاقہ ہے اس علاقے کے لوگوں سے نا پسند یدگی کا اظہار کیا جاتا ہے یہاں کے لوگ بنیادی انسانی ضروریات اور سہولیات سے محروم ہیں ۔ اکثر علاقوں میں بجلی ‘ گیس ‘پانی ‘ سیوریج کا نظام نہیں ہے ان تمام سہولیات کو فراہم کرنا کسی بھی صوبائی حکومت کی اہم ترین پالیسی کا حصہ نہیں رہا ۔ ہم کو گزشتہ وزرائے اعلیٰ سمیت تمام حکمرانوں سے شکایت ہے کہ سریاب کوہمیشہ نظر انداز کیا گیا بلکہ اس کے عوام کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا جو انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے ۔ 24گھنٹے صاف پانی ‘ بجلی ‘ گیس اور دیگر ضروریات زندگی یہاں کے لوگوں کا بنیادی حق ہے ان حقوق سے لوگوں کو محروم کیا جارہا ہے ۔ اس کے مقابلے ہر رکن اسمبلی کو ذاتی اخراجات کے لئے ترقیاتی پروگرام کے نام پر ہر سال کم سے کم 55کروڑ روپے دئیے جارہے ہیں یہ رقم کہاں خرچ ہورہی ہے کسی کو نہیں معلوم البتہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بعض اراکین اسمبلی اپنے ’’ ترقیاتی منصوبے‘‘ بیس فیصد پر ٹھیکے داروں کو فروخت کرتے ضرور نظر آئے۔ ایک کروڑ کے منصوبہ میں انہوں نے بیس لاکھ وصول کیے اور باقی رقم ٹھیکے داروں اور افسران کے حوالے کردئیے ۔ہم یہ مطالبہ جائز طورپر کررہے ہیں ان تمام اراکین اسمبلی کے فنڈز روک کر پہلے سریاب کے مکینوں کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں ان میں سرفہرست گراؤنڈ ٹرنک لائن سیوریج کا نظام جو ایک سرے سے دوسرے سرے تک بچھائی جائے جو تمام لوگوں کی ضروریات پوری کرے۔ اس کی تعمیر کاکام فوراً شروع کیا جائے ہر حال میں ایم پی اے حضرات کے فنڈ زروک کر اس اسکیم پر فوری طورپر عمل کیاجائے ،کسی بھی ایم پی اے کو اس وقت تک فنڈز جاری نہ کیے جائیں جب تک اہم ترین منصوبوں پر کام مکمل نہیں ہوتا۔ اس میں دوسرا بڑا منصوبہ گندے پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کا ہے ۔ شہر کے ہر حصہ میں بڑے بڑے حوض تعمیر کیے جائیں گندے پانی کو جمع کیاجائے اس کو صاف کیاجائے اور اس کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جائے تاکہ کوئٹہ کے شہریوں کو تازہ اورصاف ستھری سبزی اور ترکاریاں کھانے کو ملیں ۔ صاف پانی سے سبزیایاں اگائی جائیں، دوبارہ قابل استعمال پانی سے درختوں کے بڑے بڑے جنڈ لگائے جائیں جس کو عام زبان میں Block Forestationکہتے ہیں ۔ کیونکہ سڑکوں کے کنارے درخت لگانے اور اس کوسنبھالنے کا اسکیم ناکام ہوگیا اور سرکاری خزانہ کو اس سے شدید نقصان پہنچایا گیا ۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں گوشت مارکیٹ‘ جناح کلاتھ مارکیٹ ‘ سابقہ بس اسٹینڈ اور ریڈیو پاکستان کی خالی زمین پر بڑے پیمانے پر درخت لگائے جائیں اور وہاں پر درختوں کے جنڈ لگائے جائیں تاکہ کوئٹہ میں ماحول زیادہ اچھا ہو تاکہ شہری بیماریوں کا مقابلہ کرسکیں ،علاج اور معالج پر اخراجات کم سے کم کریں ۔ لوگوں کو صحت مند اور توانا بنائیں بجائے ان خالی مقامات پر تجارت کی جائے، من پسند افراد کو روزگار کے ذرائع دئیے جائیں اور کوئٹہ شہر میں تجارتی سرگرمیوں کو مزید ذاتی فوائد کی بنیاد پر فروغ دیا جائے۔ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ تمام حکمران اور اداروں کے سربراہ اپنا اپنا ذاتی دفتر روزگار بند کردیں اور کوئٹہ میں ماحول کو پاک اور صاف بنائیں جہاں پر لوگ سانس لے سکیں اس کے لئے گٹر کے نظام کو بہتر بنائیں ۔یہ مئیر کوئٹہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئٹہ شہر میں کوئی گٹر نہ ابلے ’ تعفن شہر میں نہیں پھیلے اور نہ ہی بیماریاں اور غلاظت، ان کا سب سے اہم ترین کام کوئٹہ کو صاف ستھرا رکھنا ہے ۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ یوم آزادی پر کوئٹہ صاف ستھرا ہوگا مگر اسی دن پرنس روڈ کے تمام نالے ابل رہے تھے ۔ تعفن اور غلاظت نے سول اسپتال ‘ افغان کونصلیٹ اور یہاں تک کہ سول سیکرٹریٹ کو بھر دیا تھا ۔ یہ واقعہ یوم آزادی کا ہے کہ بعض لوگوں نے غلاظت کے ماحول میں یوم آزادی منائی اور گٹرکے تعفن زدہ پانی کو پھلانگتے ہوئے گزر گئے ۔