وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے یہ اعلان کیا ہے کہ محکمہ خزانہ میں غبن شدہ کروڑوں روپے کی واپسی کے بعد وہ کوئٹہ شہر میں ایک اور اسپتال بنائیں گے۔ہمارا خیال ہے کہ انہوں نے جلد بازی میں فوری ضرورت کے تحت یہ بیان دیاہے ۔ کوئٹہ شہر کو کسی نئے اسپتال کی ضرورت نہیں ، حکومت کے نصف درجن سے زیادہ بڑے اسپتال کام کررہے ہیں ان میں سول ہسپتال ‘ بولان میڈیکل کالج اسپتال، شیخ زاہد اسپتال زیادہ نمایاں ہیں سینکڑوں کی تعداد میں اسپتال نجی شعبہ میں قائم ہیں ۔ سرکاری ڈاکٹر سرکاری اسپتالوں میں کام نہیں کرتے مریضوں کو نجی اسپتالوں اور کلینک کی طرف زبردستی دھکیل دیتے ہیں بعض سینئر ڈاکٹر بھی مریضوں سے بد تمیزی کرتے ہوئے پائے گئے ،وجہ یہ ہے کہ علاج و معالجے کی تمام تر سہولیات کوئٹہ شہر میں مرتکزہیں یہاں تک کہ نصیر آباد میں قیامت خیز سیلاب آیا اور لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے لیکن کوئٹہ شہر کا ایک بھی ڈاکٹر بڑا یا چھوٹا جونئیریا سینئر آفت زدہ افراد کے علاج کے لئے نہیں گیا بلکہ انہوں نے سر عام حکومتی احکامات کو ٹھکرایا اور کوئٹہ میں پرائیویٹ پریکٹس کرتے رہے ۔ اس طرح سے دیکھا جائے توبلوچستان میں علاج اور معالجے کا نظام تباہ ہوچکا ہے دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب سول اسپتال میں جب خودکش حملہ ہوا تو اسپتال میں موجود ڈاکٹر مریضوں کو چھوڑ کر فرار ہوگئے ، زیادہ تر اموات کی بنیادی وجہ ابتدائی طبی امدادکا نہ ملنا تھا اگر ڈاکٹر حضرات موقع سے فرار نہ ہوتے تو کئی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی تھیں ۔یہی وجہ ہے کہ زیادہ شدید زخمی لوگوں کو دوسرے اسپتالوں میں منتقل کرنا پڑا۔ سیکورٹی کی وجہ سے لوگوں کو خون کے عطیات دینے سے روکا گیا جس کی وجہ سے بعض اموات ہوئیں ہماری یہ رائے ہے کہ حکومت ان علاقوں میں بہت بڑے بڑے اسپتال بنائے جہاں پر حکومت نے میڈیکل کالج کے قیام کا اعلان کیا ہے ان میں سبی ‘ خضدار ‘ تربت اور لورالائی شامل ہیں ۔ ان شہروں میں کوئٹہ کے ہم پلہ اسپتال تعمیر کیے جائیں تاکہ مختلف امراض کے ماہرین ان شہروں میں بھی کام کریں ۔ تمام ترمیڈیکل سہولیات کا کوئٹہ میں مرتکز ہونا اچھی بات نہیں ہے کیونکہ ویسے ہی سینکڑوں نجی اسپتال اور کلینک کوئٹہ میں ہیں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مریض بلوچستان کے دوردراز علاقوں سے علاج کی غرض سے کوئٹہ کا رخ کرتے ہیں لہذا وزیراعلیٰ صاحب اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کریں پہلے بہتر علاج و معالجے کی سہولیات دوردراز علاقے کے لوگوں کو فراہم کیاجائے نئے اور بڑے اسپتال سب سے پہلے خضدار ‘ تربت ‘ لورالائی میں قائم کیے جائیں ۔ خضدار پورے وسطی بلوچستان کے لئے ،تربت پورے مغربی بلوچستان اور لورالائی پورے شمالی بلوچستان کے لئے، سبی اور نصیر آباد میں اسپتال پورے مشرقی بلوچستان کے لئے کافی ہو گا تاکہ کم سے کم لوگ کوئٹہ کا رخ کریں۔ کوئٹہ کی اس معاملے میں اجارہ داری ہر صورت میں ختم ہونی چائیے ۔ ماہرین وہ تمام سہولیات مختلف خطوں کو فراہم کریں تاکہ لوگوں کو کوئٹہ تک کا سفر کرنا نہ پڑے لہذا اس رقم سے سب سے پہلے خضدار میں بہت بڑا اسپتال تعمیر کیا جائے جو میڈیکل کالج کی ضروریات کو پورا کرے۔ اس طرح تربت اور لورالائی کے اسپتال کی تعمیر کو اتنی ہی اہمیت دی جائے اگر وسائل کم ہوں تو ایم پی اے حضرات کے فنڈ زروک کر کم سے کم تین بڑے اسپتال فوری طورپر تعمیر کیے جائیں ۔ اس کے لئے فنڈز ابھی سے مختص کیے جائیں تاکہ کام جلد سے جلد شروع اور جلد سے جلد مکمل ہوجائے ۔یہ حکومت کی پہلی ذمہ داری ہے کہ ہرقسم کی سہولیات لوگوں کو ان کے گھروں تک پہنچائی جائے ۔ لہذا یہ عوام الناس کا بنیادی حق ہے کہ ان کو صحت او رعلاج و معالجے کی سہولیات نزدیک ترین شہر میں فراہم کیاجائے ۔ ان کے گاؤں اور دیہات میں فلٹر کلینک قائم کیا جائے تاکہ زیادہ سنگین قسم کی بیماریوں کے علاج کیلئے بڑے اور ٹیچنگ اسپتالوں کو روانہ کیاجائے ۔کوئٹہ کو مزید اسپتالوں کی ضرورت نہیں ہے جتنے اسپتال موجود ہیں ان میں سہولیات کو بہتر بنایا جائے تاکہ مریض نجی اسپتالوں کا رخ نہ کریں۔ علاج معالجہ انسانوں کا بنیادی حق ہے ۔ ریاست اس کو بلوچستان کے تمام علاقوں میں بلا امتیاز فراہم کرے اور کوئٹہ کی اجارہ داری کو ختم کیاجائے ۔
دوردراز علاقوں میں بڑے ہسپتال بنائیں
وقتِ اشاعت : August 27 – 2016