کراچی کی سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ ان دنوں شدید دباؤ میں سیاست کررہی ہے اس کی وجہ الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقاریر اور میڈیا ہاؤسز پرحملے ہیں ۔ متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین موقف اختیار کررہے ہیں کہ الطاف حسین ذہنی دباؤمیں مبتلاتھے اس کی وجہ کارکنان کی گرفتاری سمیت اُن پر مقدمات درج کیے جارہے تھے مگر سب سے اہم وجہ جس کااظہار متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین نہیں کررہے وہ ہے الطاف حسین کی میڈیا سے بلیک آؤٹ جس سے الطاف حسین سخت نالاں تھے وگرنہ میڈیاہاؤسزپر حملے کے آرڈرزکیوں دیئے گئے‘الطاف حسین مسلسل اشتعال انگیز ی پرمبنی باتیں کررہے تھے مسلح افواج اور رینجرز کے اعلیٰ افسران کو الطاف حسین نے متعدد پر اپنے تقاریر پر ہدف بنایاجس کے بعد میڈیا سے ان کابلیک آؤٹ عمل میں آیا‘ الطاف حسین پر یہ پابندی اب تک موجود ہے مگر بات اب بہت آگے نکل چکی ہے۔متحدہ قومی موومنٹ نے شہر کے جن علاقوں میں ناجائز دفاتر سیکٹر قائم کیے تھے انہیں بلڈوز کرنے کا عمل جاری ہے اور اس کے احکامات حکومت نے دیے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کی اب سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں حالانکہ اب کراچی شہرکامیئر اور ڈپٹی میئر کا تعلق بھی متحدہ قومی موومنٹ سے ہے یہ بات تو بالکل واضح اور صاف ہے کہ اب بھی وہی مینڈیٹ ایم کیوایم کے پاس موجود ہے۔ اب تک جو قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کا اثر کراچی میں ختم ہوتاجارہا ہے اور ایم کیوایم کے ہی اہم علاقوں میں الطاف حسین کی تصاویر ہٹاکر پاکستانی پرچم لہرایا جارہا ہے جس سے متحدہ قومی موومنٹ سے ان کے اپنے ووٹرز نالاں ہیں مگر یہ بات بھی وثوق کے ساتھ نہیں کی جاسکتی کہ تصاویر ہٹانے والے ایم کیوایم کے ہی کارکنان یا ہمدرد ہوں کیونکہ اب تک صرف نامعلوم افراد کا ذکر آرہا ہے جس طرح ماضی میں کراچی میں گھیراؤجلاؤٹارگٹ کلنگ ہڑتال کرنے والے نامعلوم افراد تھے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایم کیوایم کی سیاسی سرگرمیاں شہر میں نہ ہونے کے برابر ہیں شدید دباؤ میں چند ایک پریس کانفرنس دیکھنے کو مل رہے ہیں جس پر صرف اپنی صفائی پیش کی جارہی ہے اور سیاسی سرگرمیوں کو بحال کرنے کی اپیل بھی کیاجارہا ہے اس کا مقصد ایم کیوایم کے پاس یہ اطلاع موجود ہے کہ جس طرح کا عمل اُن کے قائد الطاف حسین اور کارکنان نے کیے اُس سے ریاست سخت نالاں ہوچکی ہے اور امریکہ‘اسرائیل‘ بھارت سے مدد مانگنے کی بات بھی ان کے گلے میں پھنس چکی ہے ‘شنید میں آرہا ہے کہ ارباب اختیار متحدہ قومی موومنٹ پر بین لگانے کے حوالے سے بھی سوچ رہی ہے اور اس کیلئے آئینی طریقہ کار پرغور کیاجارہا ہے اور قوی امکان ہے کہ یہ عمل چند دنوں یا مہینوں میں بھی ہوسکتا ہے اگر متحدہ پر بین لگ جاتی ہے تو کراچی شہر کے حالات کس کروٹ بدلیں گے یقیناًاس کا ردعمل بھی سامنے آئے گا مگر ان تمام حالات کو مد نظر رکھ کر سیکیورٹی انتہائی سخت کرنے کا امکان ہے تاکہ حالات کو قابو میں کیاجاسکے مگر ان تمام عوامل سے معاشی شہ رگ کراچی پر اثرات مرتب ہونگے۔ متحدہ قومی موومنٹ اپنی پوری کوشش میں لگی ہے کہ جلد ہی معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کیاجاسکے مگر ثالثی کا کردار کون ادا کرے گا جو متحدہ قومی موومنٹ کے ماضی کے تمام عمل کا پھر سے نہ دہرانے کی گارنٹی دے سکے اپوزیشن جماعتیں کردار ادا کریں گی فی الوقت یہ آثار بھی نظر نہیں آرہے متحدہ قومی موومنٹ اپنی جماعت پر بین لگانے سے قبل کوششیں تیز کرچکی ہے جس کیلئے فاروق ستار سب سے زیادہ سرگرم دکھائی دے رہے ہیں فاروق ستار کی یہ کوششیں رنگ لائیں گی جس پر کچھ نہیں کہاجاسکتا۔دوسری جانب پاک سرزمین پارٹی اس پورے عمل کے دوران پچ پر بہترین انداز میں کھیل رہی ہے اور اُن کی کوشش ہے کہ رابطہ کمیٹی کے اہم اراکین ان کے ساتھ مل جائیں تاکہ آنے والے الیکشن کے دوران وہ کراچی میں زیادہ سے زیادہ نشستیں لے کر فرنٹ لائن پر آجائے ۔اب کراچی کی سیاست کا یہ کھیل کتنی سیریز کے بعد ختم ہوگا اور کونسی جماعت کراچی میں راج کرے گی سب کی نگاہیں آنے والے وقت پر ہیں کیونکہ کراچی میگاسٹی کے ساتھ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے یہاں کا امن ملکی سلامتی اور بقاء کے ساتھ جڑا ہے جس پر ریاست کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرے گی۔