|

وقتِ اشاعت :   September 1 – 2016

خضدار : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر و سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ ریاستی اختیار داروں کی غلط حکمت عملی اقوام کے وسائل پر ان کی حق ملکیت کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے سی پیک بھی دوسرا کالا باغ ٖڈیم بن جائے گا ،جس ترقی اور منصوبہ کی بنیاد چوری ،ڈاکہ زنی اور بد دیانتی پر ھو وہ ترقی ہمیں قبول نہیں ،سی پیک صرف اور صرف پنچاب کے لئے ہیں پنجاب کی کتابوں میں آج بھی بلوچ کو دہشت گرد قرار دی جا رہی ہے ،ہم اپنی غداری تسلیم کرتے ہیں ریاستی اختیار دار ان غداروں کا بھی نام بتائیں جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ،اسلام کے نام پر مذہب کے نام پر بننے والی ریاست میں ہمیں آنسو سسکیاں مسخ لاشیں اور نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کے سواء کچھ نہیں دیا،انصاف کے ادارے بلوچستان آکر زمین بوس ہو جاتے ہیں،سانحہ آٹھ اگست میں ایک ایسے طبقے کا نشانہ بنایا گیا جو عوام کو انصاف دلانے والا طبقہ تھا ان خیالات کا اظہار انہوں نے بی این پی کے زیر اہتمام شہداء کوئٹہ (شہید وکلاء) کی یاد میں منعقدہ تعزیتی جلسہ سے خطاب کے دوران کیا جلسہ سے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی ،بی ایس او کے مرکزی چیئرمین انجینئر نذیر بلوچ ،بلوچ قوم پرست رہنماء نواب زادہ حاجی لشکری خان رئیسانی ،بی این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جہانذیب جمالدینی ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضی ،بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر غنی خان خلجی ،عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء و رکن اسمبلی انجینئر زمرد خان ،بی این پی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری لعل جان بلوچ ،سابق رکن قومی اسمبلی عبدالرؤف مینگل ،پرنس موسیٰ جان احمد زئی ،اغا سلطان ابراہیم احمد زئی ،حیدر زمان بلوچ ،ڈاکٹر شہناز نصیر بلوچ ،ماہ رنگ بلوچ ،بی ایس او کے سیکرٹری جنرل منیر جالب بلوچ ،فاروق لہڑی ایڈووکیٹ نے خطاب کیا جبکہ اسٹٰیج سیکرٹری کے فرائض بی این پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ،نے انجام دیا بی این پی کے مرکزی رہنماء نواب زادہ میر امان اللہ زہری نے جلسہ سے ٹیلی فونک خطاب کیا بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہاں یہ روایت بن چکی ہے کہ جو بھی کاروائی ہوتی ہے اس کا الزام فورا غیر ملکی ایجنسیوں پر لگایا جاتا ہے چلیں مانتے ہیں کہ سانحہ کوئٹہ میں را ملوث ہیں مگر ہمیں یہ بھی بتایا جائے کہ توتک کے اجتماعی قبروں ،مسخ شدہ لاشوں اور نوجوانوں کا لاپتہ کرنے میں بھی را ملوث ہیں کیا ؟؟اگر نہیں تو ان کے متعلق ریاست کی کیا پالیسی ہے ؟؟خضدار بلکہ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں کوئی گھر کوئی محلہ کوئی سوسائٹی نہیں جہاں مسخ شدہ لاشیں نہیں گئی ھو اور جہاں کے نوجوان لاپتہ نہ ہوا ہوں اگر لاشیں پھنکنے اور مسخ کرنے سے قومیں زیر ہوتی تو لاکھوں کی تعداد میں جانوں کا نظرانہ پیش کرنے والے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہیں بن سکتا تھا ہمیں نہیں معلوم یہ حکمران کب ہوش کے ناخن لیں گے بی این پی کے سربراہ نے توتک اجتماعی قبروں کے حوالے سے اپنے خطاب میں کہا کہ اس کی تحقیقاتی رپورٹ عوام سے چھپائی جا رہی ہے اس رپورٹ کو عوام سے چھپانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس میں رپورٹ ترتیب دینے والے حقائق سے زیادہ مبینہ طور پر وفاداری کو اہمیت دی ہے اور اسی وفاداری کی بدولت ترقیاتی ملتی ہے انہوں نے کہا کہ کراچی میں آج جو مردہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں قوم کو بتایا جائے کہ یہ مردہ باد لگانے والے کس کے تخلیق کردہ ہے آج جن مردہ باد لگانے والوں کے خلاف کاروائی ہو رہی ہے اس وقت کیوں ان کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی جب چیف جسٹس کے دورہ کراچی پر سندھیوں کو لاشوں کا تحفہ دیا گیا ،اس وقت کیوں ان مردہ باد کہنے والوں کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی جب بلدیہ کے فیکٹری میں 250 مزدورں کو فیکٹری سمیت جلایا گیا ؟سی پیک کے حوالے سے بی این پی کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکمرانوں کی انا اقوام کی حق ملکیت کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی سے ایسا لگتا ہے کہ سی پیک میں دوسرا کالاباغ ڈیم بن جائے گا سی پیک کے حوالے سے 46 ارب ڈالر میں سے ایک ارب بھی بلوچستان پر خرچ نہیں ہو رہا ہے اسی لئے تو ہم کہتے ہیں جس ترقی اور منصوبے کی بنیاد چوری ڈکیتی رہزنی اور بد دیانتی پر رکھی گئی ھوں اسے آنکھیں بند کر کے کیسے قبول کرسکتے ہیں انہوں نے اپنے خطاب میں نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل خان بزنجو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترقی میر حاصل خان بزنجو اور میرے پیٹ کی ہو سکتی ہے بلوچستان کے عوام اور بلوچ قوم کے لئے نہیں یہ سی پیک پنجاب کے لئے تھا ہے اور کوشش ان کی ہو گی کہ پنجاب ہی کے لئے رہے بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ ہم نے انصاف کے لئے چھوٹے عدالتوں سے لیکر اعلیٰ عدلیہ تک کے دروازوں پر دستک دی اور میں نے سپریم کورٹ کے دروازے پر میں اپنی بھائی کے بازیابی کے لئے نہیں بلکہ یہی بلوچ عوام کے لئے گیا مگر ہمارے لئے دوسرے دروازوں کے ساتھ انصاف کے دروازے بھی بند کر دی گئی ہیں جس طرح ہماری سیاسی کارکنوں ،صحافیوں اور دانشوروں کو نشانہ بنایا گیا اسی طرح وکلاء برادری کو بھی معاف نہیں کیا گیا ۔ دریں اثناء بی این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے سانحہ کوئٹہ میں شہید ہونے والے وکلاء کے یاد میں منعقدہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جھالاوان کی سر زمین نے اس دھرتی کے لئے بڑی قربانیاں دی ہے آج بھی اس دھرتی میں بسنے والے والدین کی نظریں کمزور ہو گئے ہیں اپنے بچوں کے انتظار میں ،ہم بھی اسی طرح جینا چاہتے ہیں جس طرح لاھور پنجاب اور دیگر علاقوں کے لوگوں جی رہے ہیں جب میں کہتا ھوں کہ میرا حق دیں تو فوراً فوج اور ایف سی پہنچ جاتے ہیں وہ کونسی وجوہات ہیں کہ قومی اسمبلی کی نشست حاصل کرنے والے بلوچستان کی آزادی کی بات کرتے ہیں،کیوں بلوچوں سے مزاکرات نہ ہو سکتے ؟ یہ غریبی صرف میری قسمت میں کیسی لکھی ہوئی ہے ،غداری کے الزامات 1947 ء سے ہم پر لگ رہے تھے ہمیں بتایا جائے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں بلوچ پشتونوں کا ہاتھ تھا ؟ ہمیں بتایا جائے کہ ہماری اختیار کو ہمارے وسائل پر تسلیم نہیں کیا جاتا ؟میں تو اب کہتا ھوں کہ ہمیں ان غداری کے الزامات پر فخر کرنا چائیے دو ہزار سے تین ہزار معصوم بچوں کے لاشیں اٹھا چکے ہیں اس کے باوجود اور ہم سے کتنی قربانی مانگی جائے گی جب ہم گوادر اور اپنی وسائل کی بات کر تے ہیں تو ہمیں سی پیک مخالف قرار دے کر ہمیں غدار قرار دیا جاتا ہے سی پیک تو بلوچستان میں نظر نہیں آتا سی پیک کو جواز بنا کر ہمارے بچوں کا قتل عام نہیں کیا جائے ،ریاست ہمیں لاشیں بیجتا رہے ہم واپس نہیں ہونگے ہماری جد و جہد جاری رہے گی ہم غلامی کی زندگی کو لعنت بیجتے ہیں ہمیں تو ضرور راستے سے ہٹایا جا ئے گا مگر بلوچستان کے لاکھوں فرزندان کو ختم نہیں کیا جا سکتا بلوچستان کے عوام خوف دل سے نکال دیں کیونکہ آج کے جلسہ کے کامیاب ہونے کے بعد چھاپے ہونگے ،او ایس ڈی ڈیتھ اسکواڈ کو دوبارہ ایکٹو کیا جا سکتا ہے میں واضح کرتا ھو ں کہ ہم تو 1947 ء سے پہلے بلوچ تھے بلوچستانی تھے ہمارا ملک تھا ہماری وسائل تھے آپ کون ہوتے ہیں میرے وسائل لوٹنے والے ،چند لوگوں کو خرید کر ہمارے اوپر مسلط ضرور کیا گیا مگر عوامی طاقت ان کے پاس نہیں گوادر میں دو تین کام اپنی مفادات کے لئے بنانے کا نام سی پیک ہے تو سی پیک بن رہی ہے باقی جو اصل سی پیک ہے وہ پنجاب میں بن رہی ہے ملک توڑنے کے الزامات ہم پر لگتے رئینگے مگر ریاست کے حکمرانوں کے عمل ختم ریاست کے لئے نقصاندہ ہے شہدئے کوئٹہ پوری عالم انسانیت کے شہداء ہے ہمارے حمت جوان ہے ممتاز سیاسی رہنماء سابق سینیٹر نواب زادہ حاجی لشکری رئیسانی نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1947 ء سے بلوچستان کے عوام ماتم کر رہے ہیں ہمیشہ ہم ظالم و جبر اور بربریت کا شکار رہے ہیں کچھ عرصہ قبل ریاست کی طاقتور میڈیا یہ بات کر رہی تھی کہ بلوچستان کی پسماندگی کا وجہ یہاں کے سردار ہے 1980 تک اس صوبے کو گورنر اور کمشنر ی سسٹم چلا رہی تھی جب بلوچستان میں سیاسی جمہوری حکومت بنی انہوں نے تعلیم کو عام کیا جو ریاستی اداروں کو پسند نہیں آیا انہوں نے یکدم سیاسی عمل کو روکنا شروع کیا گیا ،کچھ کو قبائلی مسائل پر کسی کو ملک دشمنی کا شکار بنایا گیا ،اس طرح کر کے ریاست اپنے کارندوں کو اسمبلیوں تک پہنچایا ،بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ میں ریاست اور ریاستی ادارے خود ملوث ہے ،ایک سازش کے تحت بلوچستان کے لوگوں پر الزام لگایا گیا کہ یہ مذہبی تشدد کا شکار کر رہے ہیں شعیہ سنی مسئلے کو ریاستی اداروں نے پیدا کر کے اس کو بھی بلوچ کا سر سجانے کی کوشش کی گئی پشین سے کوئٹہ جانے والے بس سے پشتونوں کو اتار کر شہید کر کے بلوچ پشتون کو لڑوانے کی کوشش کی گئی ،مگر ان تمام سازشوں کو بلوچ سیاسی کارکنان نے نا کام بنا دیا ،مسخ شدہ لاشوں اور مغوی نوجوانوں کا مسئلہ کافی سنگین ہے ریاست قاتلوں کو پتہ دیں ،توتک میں تین سو کے قریب افراد کی اجتماعی قبریں ملی زمہ دارن کون ریاست خاموش ہے ،ان سازشوں کے موجودوں نے وکلاء کو نشانہ بنا کر شہید کر دیا ،ہم ایسی سی پیک قبول نہیں جو ہمارے نوجوانوں ،وکلاء سب کو نگل رہی ہے ،اگر سانحہ کوئٹہ میں را ملوث ہے وزیر اعظم کہتی ہے کہ اس میں را ملوث ہے تو ریاست کی زمہ داری کیا ہے ؟ تو اقوام متحد ہ میں کیوں اس مسئلے کو نہیں اٹھا یا ،اسلامی کانفرنس میں کیوں نہیں اٹھایا ،سارک کے کانفرنس میں بھی اس مسئلے کو نہیں اٹھایا ،اور چوتھی پلیٹ فارم یہ تھا کہ وزارت داخلہ بھارت کے سفیر کو ملک بدل کرتے مگر ایسا نہیں ہوا کیونکہ جو چوری کرتا ہے وہ چور کو کبھی گرفتا ر نہیں کرتا ،ریاست بلوچستان کے عوام پر تمام راستوں کو بند کر دیا اب اللہ تعالیٰ کی طرف ہم متوجہ ہے کہ وہ کب ہمارے ساتھ انصاف کریگا اب تو اسلام آباد کی جانب دیکھنا ظلم ہو گا ،اور آج ہماری شہداء کی روحیں فراد کر رہے ہیں کہ بلوچ ،پشتون ،ہزارہ سیٹلر سب متحد ہو کر بلوچستان کے حقوق کی نگیبانی کریں ڈیتھ اسکواڈ کے لئے آج کا جلسہ بہت بڑا پیغام دے رہا ہیبی ایس او کے مرکزی چیئرمین نذیر بلوچ نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ بلوچستان کے عوام اور بلوچ قوم کی نسل کشی کی گئی کبھی اغواء کر کے غائب کر دیا گیا اور اسی طرح نوجوانوں کو آغواء کر کے ان کی مسخ شدہ نعش گھروں کو بیجا جاتا تھا اور اب کسی خاص بندے کو ٹارگٹ کر کے جمع ہونے والے مجمع کو خود کش کے زریعے ٹارگٹ کر نا شروع کر دیا گیا ہے ،انجینئر ،صحافی ،سیاسی کارکنا ن اور اب وکلاء کو نشانہ بنایا گیا آج جھالاوان کے عوام اتنی بڑی تعداد میں جمع ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ بلوچستان کے حقیقی قوت کے ساتھ ہے اگر بلوچستان میں را ملوث ہے تو ریاستی ادارے اس جانب کیوں توجہ نہیں دیتی اپنا غصہ بلوچستان کے عوام کے بلوچ نوجوانوں پر نکالتے ہیں ،بلوچستان سے دریافت ہونے والے اجتماعی قبرستان کی داستان بھی تو بتایا جائے کیا انہیں بھی را قتل نے کیا ؟ظالم جتنے بھی ظلم کریں بی ایس او قومی تحریک کو جوان خون دیتا رہے گا خضدار میں وقت کے فرعون نے خون لی ہولی کھیلی مگر پھر بھی عوام کو زیر نہ کر سکے ،پارلیمنٹ بیٹھ کر وزارت کا مزہ لوٹنے والوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنی مظالم بس کریں وگرنہ یہ آگ ان کا بھی رخ کر سکتی ہے نواب زادی میر امان اللہ خان زہری نے جلسہ سے ٹیلی فون کے زریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں مظالم کا سلسلہ آج سے نہیں 1947 ء سے جاری ہے پہلے وکلاء کے صدر کو شہید کیا گیا بعد میں خود کش حملہ کر کے تمام وکلاء کو صفہ ہستی سے مٹایا گیا بلوچ قوم پرست یکجہاں ہو کر ایسے ظلمتوں کے خلاف صف آراء ہو جائیں اگر بی این پی کے سربراہ کے چھ نقاط پر عمل کیا جاتا تو آج بلوچستان کے حالات ایسے نہیں ہوتے ہر ظالم آتا ہے سابق معافی مانگ کر ظلم کی نئی تاریخ رقم کرنا شروع کر دیتے ہیں موجودہ صوبائی حکومت بلکہ وفاقی حکومت کرپشن کے مثالیں قائم کر رکھا ہے میرے اور میرے خاندان کو جھوٹے مقدمات بنا کر ہمیں پریشان کیا جا رہا ہے ہمیں انصاف نہیں ملے گا انصان لینے کے لئے ہمیں یکجاں ہونا پڑے گا تاریخ گواہ ہے کہ جھالاوان کے عوام نے ہمیشہ قومی تحریک میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ،علماء کرام سے اپیل کرتا ھوں کہ فرد واحد سے نہ ڈریں یہ عمل بھی شرک کے مترادف ہے وہ بھی فرد واحد کے خلاف اٹ کھڑے ہو جائیں ۔