|

وقتِ اشاعت :   September 1 – 2016

خضدار : سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد ایڈووکیٹ نے بی این پی کے زیر اہتمام سانحہ کوئٹہ میں شہید ہونے والے وکلاء کے یاد میں بابائے بلوچستان اسٹیڈیم خضدار میں منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج اس ملک میں ظلم اور نا انصافی کے خلاف جو آواز اٹھائی جا رہی ہے اس میں بہت بڑا حصہ وکلاء کا ہے ہم نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اس بلوچستان کے سر زمین پر جس پر کئی سالوں سے ہر گھر میں ماتم ہے قربان کر دیاآج بلوچستان میں وہ کونسا کا گھر ہے جس میں لاپتہ نوجوانوں اور شہیدوں کی لاشیں نہیں گئی ھوں ،و ہ کونساگھر ہے جس کے نوجوان آج تک لاپتہ نہیں ،اس پر ان ظالموں کا دل نہیں برا اور انہوں نے ایک ہی جگہ ساری کی ساری بلوچستان کے تعلیم یافتہ طبقہ معاشرے کی کریم اور ہماری نوجوان ساتھیوں کو ہمارے سامنے ایک دھماکے میں شہید کر دیا ،چمن ،نوشکی ،خضدار،مسلم باغ ہر جگہ لاشیں گئی ہیں ہمیں اس لئے نشانہ بنایا گیا کیونکہ ہم نے بلوچستان میں ظلم و نا انصافی کے خلاف بات کی اور آواز بلند کی میں واضح کرتا ھوں کہ ہم ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرتے رئینگے ،ظالم یہ سمجھ رہے کہ جو ساتھی گئے ان کا نظریہ ختم ہو ا مگر وہ غلطی پر ہے ان کا نظریہ آج بھی زندہ ہے اور رہتی دنیا تک رہے گی آج اگر پاکستان میں جمہوریت کے لئے ہم نے قربانیاں دی ہے ضیاء کے بد ترین آمریت ،ایوب خان اور جنرل مشروف کے آمریت کے خلاف کھڑے ہوئے جمہوریت بحال کروادی مگر افسوس آج مظالم کے نئے تاریخیں رقم ہو رہی ہے وفاقی وزیر داخلہ کو شرم ہونی چائیے اگروہ وفاقی وزیر داخلہ ہے میں سوال کرتا ھو ں کہ ان کے دائرے میں بلوچستان نہیں آتا ؟مسخ شدہ لاشوں کے کیس کو ہر صورت میں لڑنا ہو گا اور لڑتے رئینگے بلوچستان دنیا کا امیر ترین خطہ ہے مگر یہاں کے لوگوں کو ہمیشہ لاشوں کا تحفہ دیا گیا ،آج امیر بلوچستان کے والدین کے پاس اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے پیسہ نہیں ،اس ملک میں سسٹم اگر ایسا چلتا رہا تو ہم یہ کہنے پر حق بہ جانب ہونگے کہ ایسا نہیں چلے گا ہم وکلاء جھالاوان کے عوام سے وعدہ کرتے ہیں کہ ظلم کی چکی میں پسنے والے عوام کے ساتھ ہونے والے ایک ایک ظلم کو ختم کرنے کی جد و جہد کریں گے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان شہید وکلاء کی تعزیتوں پر بھی نہیں گیا سب کو انصاف دلائیں گے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سابق سینٹر کامران مرتضی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء کا ایک ایک کرکے مارنے میں وقت لگتا ظالم مارنے والے نے ایک ساتھ سب کو شہید کر کے جدت کا اظہار کیا یہ نقصان جہاں خاندانوں کی ہے وہی یہ صوبہ ملک و قوم کا نقصان ہے اس نقصان کو پورا کرنا شاید کسی کے بس میں نہیں 8 اگست کے واقعہ کو ایک ماہ گزرنے کو ہے دو ارشادات وزیر اعظم اور سپہ سالار نے ارشاد فرما دیا کہ اس واقعہ میں را ملوث ہے ہمیں ی بتایا جائے کہ راہ ہمیں کیوں قتل کرنا چاہتا ہے ہمیں کوئی جواب نہیں ملا ،دو بڑوں نے ایک ملک اور ملک کے تنظیم پر الزام لگایا میں وزیر اعظم اور سپہ سالار سے پوچھتا ھوں جس ملک پر کے ادارے پر الزام لگایا کیا اس کے سفیر کو طلب کی گئی نہ ہی اس حوالے سے دوسرے ممالک کے سفیروں کو اس کے متعلق بتایا گیا ہم جانتے ہیں کہ ہمیں مارنے والے کون ہے ،کسی تنظیم نے اس واقعہ کی زمہ داری قبول کی چلیں وہ بھی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ ہمیں کیوں مارا گیا ؟اس کے علاوہ ایک اور تیوری بھی گردش کر رہی ہے کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ نے مارا مگر اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں نیشنل ایکشن پلان کے نام پر بھی عجیب کھیل کھیلا جا رہا ہے اس وقعہ کے بعد انصاف کے اداروں نے بھی گھٹنے ٹھیک دئیے ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ وہ پارساہ ہے مگر ایسا نہیں یہ ملک ہے خدا کے لئے اسے آئین اور دستور کے مطابق چلائی جائے جس میں سب کی آفیت ہے بلوچستان ہائی کورٹ بار کے صدر غنی خلجی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آٹھ اگست کا سانحہ انتہائی دلخراش واقعہ ہے صوبائی حکومت اور انتظامیہ نے سنگین نا لائقی کا ثبوت کیا ہے ،تفتیشی ادارے اس حوالے سے ہمیں اعتماد میں نہیں لے رہے ہیں وزیر اعظم خود کو جمہوریت پسند کہتے ہیں مگر وہ ہمارے کسی شہداء کے گھر نہیںآئے ایسے جمہوری سوچ پر ہم افسوس ہی کر سکتے ہیں ،وکلاء کے ورثاء کے لئے ایک کروڑ روپے کا اعلان کرنے والے یہ جان لیں کہ انسان کی کوئی قیمت نہیں ہو تی وہ صرف خوف کی وجہ سے یہ اعلانات کرتے وزیر اعظم یہ جان لیں اگر وکلاء نہیں ہوتے تو آپ آج بھی جدہ سعودی عرب میں ہوتے ،آج غیرت مند جھالاوانیوں نے ثابت کر دیا کہ صوبائی حکومت کو مستعفی ہو جا نا چائیے صوبائی حکومت میں حکمرانی نظر نہیں آ رہی ،نہ امن و امان بہتر ہے ،آغواء برائے تاوان تیزی سے جاری ہے ،چیف جسٹس کے مغوی بیٹے میں ایک ہفتے میں بازیاب کیا جاتا ہے باقی لوگوں کو مغویوں کا سالوں گزر گئے مگر باز یاب نہیں ہوئے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن خضدار کے رہنماء قاضی حسن علی ساسولی ایڈووکیٹ نے کہا کہ آج کے جلسہ میں شریک ہر انسان کے دل میں کوئی نہ کوئی دکھ ہے آٹھ اگست کے سانحہ میں ہزاروں بچے یتیم ہو گئے ،معاشرہ کا کریم وکلاء کی نسل کشی کی گئی ،بے گناہ افراد کو انصاف کا دروازہ بند کر دیا ،بی این پی نے وکلاء کی یاد میں تعزیتی جلسہ کا انعقاد کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ تمام طبقات کا نمائندہ جماعت ہے بلوچستان کی تاریخ میں بی این پی نے وہ باب رقم کر دیا جو آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ بن اجائے گی بلوچستان میں نہ صحافی رہا ،نہ دانشور رہا ،نہ وکیل سب کا نشانہ بنایا گیا وکلاء کی شہادت کے بعد انصاف کے ادارے لنگڑے ہو گئے مجھے اس موقع پر چنگیز خان کا ایک قول یاد آتا ہے کہ انہوں نے بغداد کے تمام دانشوروں کو قتل کرنے کے علاوہ لائبریریوں کے تمام کتابوں کو ختم کر دیا گیا وہی آج ہمارے ملک میں ہو رہا ہے نہ خیبر پختونخواء کے سکول کے بچے محفوظ رہے اور نہ ہی بہادر خان وومن یونیورسٹی کے بچیاں محفوظ رہے سیڈیمن ہسپتال کانام تبدیل کر کے شہید وکلاء کے نام سے منسوب کیا جائے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے رہنماء میر فاروق لہڑی ایڈووکیٹ ہم وکلاء برادری بی این پی کے مرکزی قیادت کا مشکور ہے کہ انہوں نے شہید وکلاء کے حوالے سے جلسہ عام کا انعقاد کیا ،الیکشن سے قبل وکلاء تقسیم تھے مگر چالیس سال کے بعد وکلاء متحد ہو گئے اور انہیں فوراً نشانہ بنایا گیا وکلاء کو نشانہ بنانے کا ایک پس منظر ہے اور اس پس منظر کے متعلق جانکاری ضروری ہے اور اس کے پس منظر میں وہ عناصر ملوث ہے جنہوں نے بلوچستان کو لاشوں اور اجتماعی قبروں کا تحفہ دیا تھا